Time 15 اکتوبر ، 2019
پاکستان

کے پی حکومت کا جے یو آئی کے ’باوردی‘ محافظ دستے کیخلاف کارروائی کا اعلان

 فوج اور پولیس کے علاوہ کوئی دوسری ملیشیا نہیں ہو سکتی، جے یو آئی نے آرٹیکل 152 کی خلاف ورزی کی ہے، شوکت یوسفزئی ، فوٹو: اے ایف پی

خیبرپختونخوا (کے پی کے) حکومت نے   جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان (جے یو آئی۔ ف)  کے باوردی محافظ دستے کیخلاف کارروائی کا اعلان کردیا۔

صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ مسلح جتھے بنانا آئین پاکستان اور نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہے ، جمعیت علمائے اسلام کیخلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کی جائے گی۔

شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ فوج اور  پولیس کے علاوہ کوئی دوسری ملیشیا نہیں  ہو سکتی، جے یو آئی نے  آرٹیکل  152 کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایک جتھے کو لا کر خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کیا چاہتے ہیں ، آپ نے اگر احتجاج کرنا ہے تو کریں آپ کو کسی نے نہیں روکا ہے۔

 واضح رہے کہ  جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔

گذشتہ دنوں جے یو آئی کی جانب سے مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں  پشاور  میں اپنے باوردی رضاکاروں کیلئے تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا جس پر اسے حکومت کی جانب سے  سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

علاوہ ازیں ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات جے یو آئی کا کہنا ہے کہ فضل الرحمان اور شہباز شریف کے درمیان ملاقات 18 اکتوبرکوہوگی، مولانا فضل الرحمان 18 اکتوبرکوشہباز شریف سے لاہورمیں ملاقات کریں گے۔

ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بھی تصدیق کی ہے کہ شہباز شریف اور فضل الرحمان 18 اکتوبر کو مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے، دونوں رہنماؤں کی پریس کانفرنس ماڈل ٹاؤن لاہور میں شام ساڑھے سات بجے ہوگی۔

فضل الرحمان کیوں دھرنا دینا چاہتے ہیں؟

25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی ، معاشی بدحالی اور حکومتی ناہلی کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کررکھا ہے تاہم مارچ میں شرکت کے حوالےسے دو بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔

10 اکتوبر کو مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے مولانا کے آزادی مارچ میں شرکت کی مخالفت کی۔ شہباز شریف کے مطابق اگر مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ اور دھرنا مِس فائر ہوا تو حکومت کو نئی زندگی مل جائے گی۔

اس اجلاس کی تفصیلات لے کر اگلے روز ن لیگ کا وفد پارٹی قائد نواز شریف سے حتمی منظوری کیلئے کوٹ لکھپت جیل گیا تاہم شہباز شریف کمر درد کی وجہ سے نہ جاسکے۔

اسی دوران ن لیگ میں اختلافات کی خبریں بھی گردش کرنے لگیں تاہم ن لیگ نے انہیں مسترد کردیا۔

اگلے روز نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے حکومت مخالف آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان کردیا۔

لاہور کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ نہ صرف مولانا فضل الرحمان کے جذبے کو سراہتے ہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کو پوری طرح سپورٹ بھی کرتے ہیں۔

نواز شریف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے مؤقف کو اپنا ہی مؤقف سمجھتے ہیں، مولانا احتجاج کر رہے ہیں تو وہ بالکل ٹھیک کر رہے ہیں۔

نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کے فوری بعد استعفوں کی تجویز دی تھی، مولانا نے کہا تھا کہ احتجاج کریں لیکن ہم نے انہیں اس وقت قائل کیا کہ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اُس وقت مولانا کی بات میں وزن تھا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اب سمجھتا ہوں کہ مولانا صاحب کی بات کو رد کرنا بالکل غلط ہو گا۔

مزید خبریں :