آگسٹا آبدوز اسکینڈل کی بازگشت

 1994میں پیپلز پارٹی حکومت نے فرانس سے تین آگسٹا 90بی ایس آبدوز کی خریداری کیلئے ایک ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا: فائل فوٹو

آج سے 17سال قبل 8مئی 2002کو ایک خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری اپنی گاڑی کراچی شیرٹن ہوٹل کے سامنے ایک بس جو غیر ملکیوں کو لے جارہی تھی، کے ساتھ ٹکرا کر دھماکے سے اڑادی جس کے نتیجے میں بس میں سوار 11فرانسیسی انجینئرز اور دو پاکستانی مارے گئے جبکہ 40افراد شدید زخمی ہوئے۔

یہ فرانسیسی انجینئرز کراچی میں آگسٹا سب میرین کی تیاری کے منصوبے پر کام کررہے تھے۔ اس المناک واقعہ کے بعد حکومت نے خود کش دھماکے کا الزام القاعدہ اور عسکریت پسند تنظیموں پر عائد کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی مگر فرانسیسی انجینئرز کے خاندانوں نے حکومت کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

جس کے بعد فرانس کی انسداد دہشت گردی عدالت کی کئی سالہ تحقیقات کے نتیجے میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ بس دھماکہ انتقامی کارروائی تھی جس کے پیچھے وہ عناصر تھے جو آگسٹا آبدوز کی خریداری میں کمیشن لینے میں ملوث تھے اور کمیشن کی رقم کی ادائیگی نہ ہونے پر انہوں نے بم دھماکے کا منصوبہ تیار کیا۔

یاد رہے کہ دھماکے سے قبل فرانسیسی صدر یاک شیراک نے منصب صدارت سنبھالتے ہی آگسٹا آبدوز پر کمیشن کی ادائیگی روک دی تھی۔

گزشتہ دنوں فرانسیسی عدالت نے سابق فرانسیسی وزیراعظم ایڈورڈ بلاڈر، وزیر دفاع فرانسوس لیونارڈ اور آگسٹا آبدوز پر کام کرنے والی فرانسیسی سرکاری کمپنی DCNSکے چیف کنٹریکٹر سمیت 6افراد پر فرد جرم عائد کی۔

سابق فرانسیسی وزیراعظم اور وزیر دفاع پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کو فروخت کی جانے والی آگسٹا سب میرین آبدوزوں سے حاصل شدہ 1.8ملین ڈالرز کمیشن کو اپنی انتخابی مہم کیلئے استعمال کیا۔

 اِسی طرح فرانس کی ایک اور عدالت نے سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو کک بیکس کی رقم انتخابی مہم میں استعمال کے سلسلے میں طلب کیا تاہم سرکوزی نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں کمیشن فنڈز استعمال کرنے سے آگاہ نہیں تھے۔

واضح رہے کہ 1994میں پیپلز پارٹی حکومت نے فرانس سے تین آگسٹا 90بی ایس آبدوز کی خریداری کیلئے ایک ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا، جس میں پہلی سب میرین فرانس میں تیار کی گئی تھی جبکہ باقی دو سب میرینز کو فرانسیسی سرکاری کمپنی DCNSنے پاکستان میں اسمبلڈ کرنا تھا۔

اس معاہدے پر پاکستان میں کافی تنقید ہوئی اور معاہدے میں کک بیکس لینے کا الزام لگایا گیا۔ معاہدے کے بعد اس طرح کے الزامات بھی سامنے آئے کہ اس ڈیل میں ایک اہم شخصیت کے بھائی نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کے عوض انہوں نے 100؎ملین یورو کا کمیشن وصول کیا۔

یہ الزام اس وقت درست ثابت ہوا جب بس بم دھماکے کے بعد جون 2010میں فرنچ پولیس نے فرانس میں ان کے گھر پر چھاپہ مار کر آگسٹا آبدوز کے معاہدے اور کمیشن کا ریکارڈ حاصل کیا جن میں کمیشن کی وصولی اور بعد ازاں ان رقوم کی مختلف پاکستانی اور فرانسیسی سیاستدانوں اور پاکستان کے سابق نیول چیف ایڈمرل منصور الحق کے اکائونٹس میں ٹرانسفر کے ثبوت موجود تھے۔

ان انکشافات کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے نیول چیف ایڈمرل منصور الحق سے جبری ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد وہ امریکہ شفٹ ہو گئے تھے۔ اپریل 2001میں امریکی حکام نے انہیں گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا تاہم وہ نیب سے پلی بارگین کرکے بیرون ملک چلے گئے اور گزشتہ سال فروری میں دبئی میں انتقال کرگئے۔

فرانس میں آج کل کراچی افیئر کے نام سے مشہور اس اسکینڈل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور میڈیا پاکستان کو ایک Rogue Stateاسٹیٹ کے طور پر پیش کررہا ہے جہاں لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور کمیشن نہ ملنے پر دن دہاڑے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

یہ خبریں نہ صرف فرانس بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آبدوز اسکینڈل کو دبا دیا گیا لیکن فرانس کی حکومت نے ملک کی بڑی شخصیات پر فرد جرم عائد کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ بڑی شخصیات بھی قانون سے بالاتر نہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آگسٹا آبدوز کے سودے میں ملین ڈالرز کا کمیشن لیا گیا جو مختلف اسٹیک ہولڈرز کے اکائونٹس میں ٹرانسفر ہوا۔ اگر اس وقت بم دھماکے کی تحقیقات کیلئے پاکستان میں کمیشن قائم کردیا جاتا تو آج 17سال بعد فرانس میں جو انکشافات سامنے آرہے ہیں، وہ پہلے سامنے آجاتے مگر چونکہ اس اسکینڈل میں پاکستان کی اہم شخصیات ملوث تھیں، اس لئے اس کیس کو القاعدہ کا نام دے کر بند کردیا گیا۔

آگسٹا کک بیکس اسکینڈل آئس برگ کی اس چوٹی کی مانند ہے جس سے اس کی اصل جسامت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے کا بلند و بانگ دعویٰ کررہی ہے۔

اگر حکومت اپنے دعویٰ میں واقعی سنجیدہ ہے تو کک بیکس اسکینڈل پر تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا جائے تاکہ اس اسکینڈل میں ملوث شخصیات کے نام سامنے آسکیں اور انہیں عبرت کا نشان بنایا جاسکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔