17 اکتوبر ، 2019
ہر طرف مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کا چرچا ہے۔ میں تاریخ کے اوراق میں گم ہو گیا ہوں۔ جزائر انڈیمان، کالا پانی یاد آرہے ہیں۔
مولانا محمود حسن، مولانا جعفر تھانیسری، پھر وہ فکری تحریکیں، شاہ ولی اللہؒ، شاہ عبدالعزیزؒ کی فرنگی کے پنجۂ استبداد سے ہندوستان کو نکالنے کی انتہائی خطر آزما جدوجہد کا آغاز ان چند ہستیوں نے کیا لیکن قیادت بالآخر موہن داس کرم چند گاندھی اور قائداعظم محمد علی جناح کو میسر آئی۔
اب نائن الیون کے بعد مسلمان اور اسلامی تعلیمات جس طرح فرنگیوں، صہیونیوں، ہندوؤں کی مشترکہ یلغار کا نشانہ بنیں۔ یہ موقع تھا جب علما کو اجتماعی طور پر اس کا جواب دینا چاہئے تھا۔ امریکہ اور یورپ میں اسلام دوبارہ زیر بحث آیا۔ قرآن پاک کے نسخے بہت زیادہ تعداد میں فروخت ہوئے۔
احادیث مبارکہ کا مطالعہ ہوا لیکن علما اسلام کی طرف سے ایسی کوئی منظم کوشش نہیں کی گئی کہ اسلامو فوبیا کو بھی دور کرتے اور اپنے نوجوانوں کی مایوسی کو بھی۔ جن کو ’لبرل‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے انہوں نے اپنے طور پر اسلام کا دفاع کرنے کی کوششیں کیں۔
پاکستان افغانستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے باعث امریکی اتحاد کی زد میں آگیا۔ ان بحرانی اور خونریز دنوں میں بھی پاکستان کے علما مشائخ اور دینی مدارس کا کردار قائدانہ نہیں تھا۔ اپنے مدارس کے دفاع میں تو کوششیں نظر آتی ہیں لیکن اس امت کے علما کو جو کارِ پیغمبری ادا کرنا چاہئے تھا وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔
11ستمبر 2001کے بعد امریکی یورپی پالیسیوں، نیٹو کی یلغار نے مسلمان نوجوانوں کو ذہنی خلفشار میں بھی مبتلا کیا۔ غیر مسلم ملکوں میں تعلیم یا روزگار کے سلسلے میں مقیم مسلم نوجوان کو فکری، تہذیبی، ثقافتی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سعودی عرب، ملائشیا، مصر، ترکی، پاکستان کہیں سے بھی ان نوجوانوں کی فکری رہنمائی نہیں ہوئی۔
پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں بھی علما نے قیادت کی صف اوّل کبھی نہیں سنبھالی ہے۔ امامت کے مواقع ہونے کے باوجود وہ مقتدی بنتے رہے۔ 1953کی تحریک ختم نبوت کی دستاویزات گواہی دیتی ہیں پھر شہید ذوالفقار علی بھٹو کی مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک نظامِ مصطفیٰ کی یادیں تازہ کریں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا۔
ایک انتہائی سفاک مارشل لا، جس سے اب ساری مذہبی سیاسی جماعتیں قطع تعلق ظاہر کرتی ہیں۔ اب مولانا فضل الرحمٰن نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر ایک بڑا چیلنج قبول کیا ہے جس میں اگر کامیاب ہوتے ہیں تو انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ جنرل ضیاء الحق کی طرح کوئی ’عزیز ہم وطنو‘ آجائے یا باریاں لینے والوں میں سے کوئی پھر باری لے لے۔
اگر آزادی مارچ ناکام رہتا ہے جس کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ اس ضمن میں کوششیں کرنے والے زیادہ ہیں تو ناکامی کا سارا ملبہ مولانا فضل الرحمٰن اور جمعیت علمائے اسلام پر ڈال دیا جائے گا۔ برصغیر میں علم کے احیاء اور انسانی آزادی کی مساعی میں علما کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔
جمعیت علمائے ہند قیام پاکستان کی مخالف تھی۔ وہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کانگریس کے ساتھ تھی لیکن اب جمعیت علمائے ہند بھارت میں سیاسی قوت نہیں رہی۔ وہ صرف فلاحی خدمات انجام دے رہی ہے۔
کروڑوں بھارتی مسلمان قیادت کے لئے مودی کی طرف دیکھتے ہیں یا راہول گاندھی کی سمت۔ بھارت میں مسلمانوں کو موثر قیادت کی جتنی ضرورت ہے کشمیر میں بھارتی جبر و استبداد کے تناظر میں اور زیادہ۔ وہاں علمائے کرام نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔
پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتیں ہمیشہ سرگرم رہی ہیں لیکن 1970کے انتخابات کے بعد سے زیادہ موثر انداز اختیار کیا۔ جماعت اسلامی کی اپنی ایک مسلسل جدو جہد ہے۔
مشرقی اور مغربی پاکستان میں شوکت اسلام کے شاندار جلوسوں کے باوجود پارلیمنٹ میں اسے قیادت میسر نہیں آئی۔ جمعیت علمائے اسلام نے مولانا مفتی محمود کی قیادت میں سیاسی سفر زیادہ نمایاں انداز میں کیا۔
سرحد اور بلوچستان میں حکومت بھی بنی۔ پھر پی پی پی حکومت کے خلاف احتجاج میں پیش پیش رہی لیکن قوم کو جس فکری رہنمائی کی ضرورت تھی اس میں جمعیت علمائے اسلام مطلوبہ کردار ادا نہیں کر سکی۔ جمعیت علمائے پاکستان مولانا شاہ احمد نورانی کی رحلت کے بعد بالکل ہی بے اثر ہو گئی ہے۔
نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر جو قیامتیں ٹوٹیں، عراق، لیبیا، مصر، تیونس، لبنان میں جو قتلِ عام ہوا ہماری مذہبی جماعتوں نے اس سلسلے میں کوئی موثر تحریک چلائی نہ قوم کی رہنمائی کی۔ ممکن ہے عرب ملکوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں ایسا ہوا ہو لیکن عراق اور لیبیا نے بھی پاکستان میں مدارس اور مساجد کے لئے گرانقدر عطیات دیے۔ خاص طور پر معمر قذافی نے تو بہت سرپرستی کی۔ پاکستان کے حساس اہلِ فکر اس حوالے سے علما کے کردار سے غیر مطمئن ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کے اپنے ارادتمند کہتے ہیں کہ انتخابی شکست کے بعد انہیں جمعیت علمائے اسلام کو ملک گیر سطح پر منظّم کرنا چاہئے تھا۔ لوگ صدارتی، پارلیمانی، جمہوری نظام سے بیزار ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے خواہاں ہیں۔ اگر علمائے کرام اسلامی نظام کے خطوط جدید تقاضوں کی روشنی میں ترتیب کرکے عوام کو قائل کریں تو وہ انہیں صرف مسجد کی ہی نہیں وطن کی امامت بھی دے سکتے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے پی اور بلوچستان میں بہت مضبوط حلقہ ہائے اثر رکھتی ہے۔ اس محدود دائرے کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ عمران خان ایک عارضی مرحلہ ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ آپ کے عقیدت مند آپ کو مذہب کی وجہ سے احترام دیتے ہیں۔ اس لئے اسی تناظر میں آگے بڑھیں۔ اسلام کے غلبے کی بات کریں۔
اسلام آباد پر غلبے کی نہیں۔ 2023کے الیکشن کی تیاری کریں۔ ایران سعودی عرب کشیدگی کو سامنے رکھیں۔ افغانستان میں طالبان کی بالادستی ہونے والی ہے۔ اس حوالے سے آپ کے معتقدین رہنمائی چاہتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)