Time 17 اکتوبر ، 2019
پاکستان

ضد اور غصے سے تو گھر نہیں چل سکتے

وزیراعظم عمران خان کو دوسروں کی نہیں تو میڈیا سے تعلق رکھنے والوں اپنے اُن ’’خیر خواہوں‘‘ کی بات ضرور سننی چاہئے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس مایوسی کا اظہار اپنے ٹی وی پروگرامز، آرٹیکلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے کر رہے ہیں۔

سب یہ بات ضرور کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان پراُن کے مخالف بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے لیکن شاید خان صاحب کا کوئی ایک بھی ’’خیر خواہ‘‘اُن کی ٹیم سے خوش اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں خصوصاً پنجاب اور عمران خان کے وسیم اکرم پلس سے مطمئن نہیں۔

یہ سب خان صاحب کی ذات کی تعریف کرتے ہیں اور ساتھ گلہ کرتے ہیں کہ اپنے اردگرد جمع ’’کرپٹ‘‘ حکومتی وزیروں اور مشیروں وغیرہ کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتے۔ کئی تو کہہ کہہ کہ تھک گئے کہ نجانے خان صاحب وسیم اکرم پلس کو فارغ کیوں نہیں کرتے جس کی وجہ سے پنجاب کا بُرا حال ہو چکا۔

ہاں! خان صاحب کے ان ’’خیر خواہوں‘‘ میں ایک قدر مشترک ضرور ہے کہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ’’کرپٹ ٹولے‘‘ کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ خان صاحب کی اس خواہش پر کہ اُن کے پاس چین جیسے اختیارات ہوتے تو کرپشن کے خاتمہ کے لیے پانچ سو افراد کو جیلوں میں ڈال دیتے، وزیراعظم کے ’’خیر خواہ‘‘ کافی پُرجوش نظر آئے لیکن بے چین بھی، کیونکہ وہ کوئی حل بتانے سے قاصر رہے کہ کیا طریقہ اپنایا جائے کہ خان صاحب پانچ سو مبینہ کرپٹ افراد کو جیلوں میں ڈال سکیں۔ 

لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانچ سو ’’کرپٹ افراد‘‘ کی لسٹ کون مرتب کرے گا اور کیا اس سے ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا، معیشت بہتر ہو جائے گی، سرکاری افسران محنت شروع کر دیں گے اور فیصلہ سازی کی رفتار میں تیزی آ جائے گی؟؟؟ایسی لسٹیں تو ماضی میں کئی بار بنیں لیکن تاریخ نے ہر بات ثابت کیا کہ ان لسٹوں کا مقصد صرف اپنے مخالفوں کو سبق سکھانا ہوتا تھا۔

نیب پر اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اُس کی وجہ سے کاروباری طبقہ اور بیورو کریسی کام نہیں کر رہے، معیشت کا بُرا حال ہو چکا ہے لیکن اُسی نیب کو اس لیے برقرار رکھا جا رہا ہے کیونکہ جن کو پکڑا جا رہا ہے اُن کا تعلق اپوزیشن سے ہے، جس پر مخالفوں کی چیخیں نکلتی ہیں تو خان صاحب کے ساتھ ساتھ اُن کے میڈیائی ’’خیر خواہوں‘‘ کو بھی بہت سکون ملتا ہے۔ 

لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ چلیں جو اچھے نہیں لگتے، جن کی زبانیں حکومت اور خان صاحب کے خلاف بہت چلتی ہیں اُن کو اندر تو کر دیا لیکن کیا ایسے ثبوت ہیں جن کی بنیاد پر اُنہیں ٹرائل کورٹ سے ایسی سزائیں دلوائی جا سکتی ہوں جو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ تک قائم رہیں۔ ابھی تک تو جو کیس ہائی کورٹس تک پہنچے اُس میں نیب کے لیے شرمندگی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

خان صاحب میں بہت خصوصیات ہیں لیکن اُنہیں اپنے غصے اور ضد پر قابو پانا ہو گا۔ نجانے کون اُن کے کان بھرتا ہے جس بنا پر ایف آئی اے کو کہا جاتا ہے کہ خواجہ آصف کے خلاف غداری کا کیس اس لیے بنایا جائے کیونکہ جب وہ نواز شریف کے دور میں وزیر دفاع تھے تو اُن کے پاس عرب امارات کا اقامہ بھی تھا۔

ذرائع کے مطابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن جن کو چھٹی پر بھیج دیا گیا، کو اس بات پر سزا ملی کہ غداری کے مقدمہ کے لیے ثبوت چاہئے کہ یہ غداری کا کون سا عمل تھا۔ محض کسی کی خواہش پر غداری کا مقدمہ تو نہیں بن سکتا۔ جب ایسی صورتحال ہو اور اختیارات بھی چین والے مل جائیں تو پھر نجانے کس کس کو کیسے کیسے جرم میں جیلوں میں بند کر دیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کرپشن کے خاتمے کا یہ انداز ہو اور کسی بھی فرد کی ذاتی خواہش سے لوگوں کو کرپشن کیسوں میں پکڑا جائے گا تو پھر پانچ سو کیا پانچ ہزار کی لسٹ بھی چھوٹی پڑ جائے گی۔

’’دی نیوز‘‘ اور ’’جنگ‘‘ میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ڈی جی ایف آئی اے پر دبائو تھا کہ وہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کو پکڑیں لیکن وہ اس کام کے لیے تیار نہ تھے جس پر حکومت اُن سے ناراض ہو گئی۔

خان صاحب بہت سی خصوصیات کے مالک ہیں اور میری ذاتی رائے میں اگر وہ اپنی ضد اور غصے پر قابو پا لیں تو یہ اُن کی حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی بہت اچھا ہو گا۔ ضد اور غصے سے تو گھر نہیں چل سکتے، ہم یہاں پاکستان کو چلانے کی بات کر رہے ہیں۔

 خان صاحب کو چاہئے کہ اپنے وعدوں کے مطابق اداروں میں اصلاحات لاکر اُنہیں مضبوط بنائیں، پولیس و بیورو کریسی کو غیر سیاسی بنائیں، احتساب کے نظام میں شفافیت لائیں، ایف آئی اے، ایف بی آر، ایس ای سی پی جیسے اداروں کو آزاد اور خود مختار بنائیں۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ باقی نہ رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :