Time 20 اکتوبر ، 2019
صحت و سائنس

’’بانچھ پن‘‘ عیب نہیں، مرض

اولاد، اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے افضل ترین نعمت ہے، جوصرف درازیِ نسل کی موجب نہیں ٹھہرتی، بلکہ والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک، خوابوں کی تعبیر اور گھر کی رونق بھی ہوتی ہے۔

اس بیش بہا تحفے کی اہمیت کا اندازہ وہی جوڑے لگاسکتے ہیں، جن کے آنگن میں کبھی کسی نومولود کی قلقاریاں نہیں گونجیں۔ اگرچہ ماضی میں اولاد نہ ہونا ایک عیب تصوّر کیا جاتا تھا، مگر جب تحقیق کا دَر وا ہوا تو طبّی ماہرین نے یہ ثابت کردیا کہ بےاولادی عیب نہیں،ایک مرض ہے،جس کا علاج ممکن ہے۔

طبّی اصطلاح میں یہ مرض’’ بانجھ پن‘‘ کہلاتا ہے، جس سے نجات کے لیے متعدد طریقۂ علاج مستعل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں بانجھ پن کی شرح 15فیصد ہے۔

اگر گزشتہ چند برسوں کے دوران جاری کردہ اعدادوشمار کا جائزہ لیاجائے، تو اس شرح میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ بانجھ پن کیا ہے، علاج کے سب سے مستعمل طریقۂ کار (آئی وی ایف) اور عام حمل کے دورانیے میں کوئی فرق ہے، علاج میں کام یابی کا تناسب کس حد تک ہے؟ اور اسی طرح کے کئی اور سوالات کے جواب جاننے کے لیے ہم نے ملتان کےمعروف ماہرِ امراضِ نسواں، ڈاکٹر اعجاز احمد سے تفصیلی بات چیت کی۔

واضح رہے کہ 2010ء میں ملتان میں بانجھ پن کاپہلا طبّی مرکز قائم ہوا، جہاں2011ء میں ڈاکٹر اعجاز احمد اور ڈاکٹر نسیم اشرف نے پہلے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا کام یاب تجربہ کیا۔

ڈاکٹر اعجاز احمد16مارچ 1957ء کو ضلع رحیم یار خان کی تحصیل، لیاقت پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایم بی بی ایس نشتر میڈیکل کالج، ملتان سے کیا، جب کہ لندن سے ایم آر او جی کرنے کے بعد 1983ء میں نشتر میڈیکل کالج، ملتان سے وابستہ ہوگئے۔ 1986ءمیں ایک بار پھر انگلینڈ چلے گئے، جہاں سینٹ پیٹرز یونی ورسٹی اسپتال میں خدمات انجام دیں۔

1993ء میں پاکستان واپس آئے اور نشتر میڈیکل کالج اسپتال، ملتان سے وابستہ ہوگئے۔ فی الوقت ایک نجی اسپتال میں بطور کنسلٹنٹ ماہرِ امراضِ نسواں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز احمد سےہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

س:شادی کے کتنے عرصے بعد تک حمل نہ ٹھہرنے کی صورت میں معالج سے رجوع کرناچاہیے؟

ج: اگرشادی کے ایک سال بعد بھی حمل نہ ٹھہرے تو مزید انتظار کی بجائے معالج سے رجوع کرلیا جائے۔ خصوصاً وہ خواتین، جن کی عُمر35 سال سے زائد ہو اور فیملی ہسڑی میں بھی یہ عارضہ موجود ہو۔ عمومی طور پر شادی کے پہلے سال ہی تقریباً 80 فیصد جوڑے اولاد کی نعمت سے مالا مال ہو جاتے ہیں، البتہ 10فی صد جوڑوں میں دو سال کے بعد حمل کے امکانات پائے جاتے ہیں، جب کہ اس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد باقی 10فی صد جوڑوں کو حمل کے حصول کے لیے علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔

س:دُنیا بَھر میں خواتین اور مردوں میں بانجھ پن کا تناسب کیا ہے؟

ج: عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دُنیا بَھر میں 48.5 ملین شادی شدہ جوڑے کام یاب حمل کے حصول میں ناکام ہیں، ان میں خواتین کا تناسب 10فیصد اور مَردوں کا 7 فی صد ہے۔

س:مَرد و خواتین میں بانجھ پن کی وجوہ کیا ہیں؟

ج:مَردوں میں سرِ فہرست اسپرم کا سُست ہونا، جرثوموں کی کمی اوران کا صحت مند نہ ہوناہے۔ جب کہ بعض کیسز میں کسی مرض مثلاً ذیابطیس یا فالج کے سبب بھی تولیدی نظام ناکارہ ہوجاتا ہے، تو کبھی جرثوموں کا اخراج درست نہیں ہوتا، جو کسی بیماری یا جسمانی چوٹ کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔

علاوہ ازیں، جرثوموں کی عدم موجودگی، undescended Testicle، جینیاتی خرابی اور کن پیڑے بھی سبب بن سکتے ہیں۔خواتین میں وہ تمام امراض جن میں رحم یا رحم کی نالیوں کو نقصان پہنچا ہو،حمل ٹھہرنے میں رکاوٹ کاباعث بنتے ہیں۔

ان میں پیلوک اِن فلیمیٹری ڈیزیز (Pelvic Inflammatory Disease)،

رسولی، رحم کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا، کوئی پیدایشی نقص اورموروثی بیماریاں سرفہرست ہیں، جب کہ دیگر وجوہ میں انڈے کا نابالغ یا صحیح وقت پر تیار نہ ہونا، بچّہ دانی کے منہ پر کسی قسم کی رکاوٹ، انڈے اور جرثوموں کا ملاپ نہ ہونا اور بار بارحمل ضایع ہوجانا وغیرہ شامل ہیں۔

واضح رہے کہ چالیس سال سے کم عُمرخواتین میں بانجھ پن زیادہ تر رحم کی نالی میں رکاوٹ کے سبب ہوتا ہے۔

البتہ کولیسٹرول کی زیادتی چاہے مرد میں ہو یا خاتون میں، دونوں ہی میں بانجھ پن کی وجہ بنتی ہے۔

س:کیا بعض ادویہ کا مسلسل استعمال بھی بانجھ پن کی وجہ بن سکتا ہے؟

ج: جی بالکل، بعض ادویہ کا مسلسل استعمال بھی حمل ٹھہرنے میں دشواری پیدا کرسکتا ہے۔ جیسے اینسیڈز (NSAIDs:Nonsteroidal Anti-Inflammatory Drugs)، اینٹی ای پی لیفک ڈرگز (Anti Ep:lephic Drugs) ، اینٹی سائیکوٹک ڈرگز(Anti Psychotic Drugs) اورDiuretic Drugs وغیرہ۔

س:حمل ٹھہرنے کے لیے مَردوں کے جرثوموں اور خواتین کے انڈوں کا نارمل تناسب کیا ہے؟

ج:قدرتی طور پر مَرد میں جرثوموں کی تعداد 20 تا 120 کروڑ اور رفتار 40 فیصد سے زائد نارمل ہوتی ہے۔ اگر یہ تعداد15 کروڑ سے کم اوررفتار بھی 40 فی صد سے گھٹ جائے، تو جرثومے، انڈے تک نہیں پہنچ پاتے۔

خواتین میں انڈوں کی تعداد کا تعین ہارمونز کے ٹیسٹ "Follicle-stimulating hormone" اور"Anti Mullerian hormone"کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

س:خواتین میں کتنے سال بعد انڈے پیدا کرنےکی صلاحیت کم ہونا شروع ہوتی ہے ؟

ج: پیدایش کے وقت ایک بچّی میں انڈوں کی تعداد 6 یا 7 کروڑ ہوتی ہے، جن کی تعداد بڑھتی عُمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

س: کیا زیادہ اور کم ورزش بھی حمل پر اثرانداز ہوتی ہے؟

ج: جی بالکل، مگر ورزش ہمیشہ اعتدال میں رہ کر کی جائے۔ عمومی طور پر تیراکی، چہل قدمی یا یوگا حمل کے لیے بہتر ہے۔ تاہم، ورزش اور اس کا دورانیہ معالج کے مشورے سے طے کیا جائے، تو زیادہ مناسب ہوگا۔

س:ماہ واری کے کتنے روز بعد حمل ٹھہرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟

ج: قدرتی طور پرماہ واری کے 12ویں تا18ویں دِن تک حمل ٹھہرنےکے زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں۔

س: بے اولادی کی صُورت میں آئی وی ایف(In vitro fertilisation)کا طریقۂ علاج کس حد تک مؤثر ثابت ہوتا ہے؟

ج: عام طور پر اسے’’ ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس کی کام یابی کا تناسب 40 سے 45 فیصد تک ہے، لیکن اس میں خاتون کی عُمر بہت اہمیت کی حامل ہے کہ بہترین نتائج 35 سال سے کمر عُمر میں حاصل ہوتے ہیں۔

س:بعض علمائے کرام کے نزدیک ٹیسٹ ٹیوب بے بی جائز نہیں، اس حوالے سے آپ کا کیا موقف ہے؟

ج: اسلامی نظریاتی کاؤنسل کے مطابق ٹیسٹ ٹیوب بے بی بالکل جائز ہے کہ اگر انڈا اور جرثوما میاں بیوی کا لیا جائے اور بیوی ہی کے رحم میں بچّے کی نمو کروائی جائے، تو ٹیسٹ ٹیوب بے بی سو فی صد جائز ہوگا اور اس پرعلمائے کرام کا اتفاق ہے۔

س:آئی وی ایف کےعلاج کےدورانیے اور مراحل سے متعلق کچھ بتائیے ؟

ج:یہ علاج ایک سے دو ماہ میں مکمل ہوجاتا ہے۔اس میں تین ہفتوں کا دورانیہ انجیکشنز پر مشتمل ہے، یہ بنیادی طور پر صحت مند انڈوں کی تیاری کا مرحلہ ہوتا ہے، دوسرےمرحلے میں مریضہ کو بےہوش کرکےبیضہ دانی سےانڈے حاصل کیے جاتے ہیں اور اس کے بعد جرثوموں کو انفرادی طور پر خردبین کی مدد سےخاتون سےحاصل کردہ انڈے میں داخل کرکے بارآوری کو کام یاب بنایا جاتا ہے۔

س:یہ آئی وی ایف خاصا منہگا طریقۂ علاج نہیں؟

ج:جی بالکل،ٹیسٹ ٹیوب بے بی پر تقریباً 6سے7 لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔

س:آئی وی ایف کے ذریعے حمل ٹھہرجائے، تو کیامدّت عام حمل جتنی ہوتی ہے،نیزدورانِ حمل کس طرح کے طبّی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟

ج:جی ،جی۔ نو ماہ کا دورانیہ بالکل عام حمل کی طرح گزرتاہے۔اس دوران حاملہ کو وہی احتیاط برتنی چاہیے، جو قدرتی طور پرحمل ٹھہرنے کی صورت برتی جاتی ہےاور زچگی کا عمل بھی عام زچگیوں کی طرح انجام پاتا ہے۔ رہی بات طبّی مسائل کی تو آئی وی ایف کے ذریعے ماں بننے والی خواتین کو چند مسائل کا سامنا ضرورکرنا پڑتا ہے، جن میں او ایچ ایس ایس (OHSS:Ovarian Hyposhiulbim Syndrome) سرِفہرست ہے۔پھر دورانِ علاج خواتین کو جو انجیکشنز لگائے جاتے ہیں، اُس کے نتیجے میں بچّہ دانی کا حجم بڑھ سکتا ہے،جب کہ پیٹ میں پانی بَھرجانے کا بھی خطرہ رہتا ہے،لہٰذا انہیں کچھ خاص احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔مثلاًوہ متوازن خصوصاًپروٹین والی غذائیں اور پانی کا کثرت سے استعمال کریں۔نیز، بعض مخصوص ادویہ حمل کےپہلے تین ماہ لازماًاستعمال کی جاتی ہیں۔یہ ادویہ بچّے کی افزایش کےلیے بےحدمفید ہیں اور زچہ و بچّہ کی صحت پر ان کے مضر اثرات بھی مرتّب نہیں ہوتے ۔

س: ٹیسٹ ٹیوب بے بیز نارمل زندگی بسر کرتے یا وہ عام بچّوں کی نسبت زیادہ بیمار رہتے ہیں؟

ج: دیکھیں، 1978ء میں آئی وی ایف کے ذریعے پہلی ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیداہوئی اور تب سےلے کر تاحال تقریباً 30 لاکھ سے زائد بچّے اسی تیکنیک کے ذریعے پیدا ہوچُکے ہیں، جن کی قوّتِ مدافعت قدرتی طریقۂ تولید کے ذریعے پیدا ہونے والے بچّوں سے کم نہیں۔ اس لیے ان میں بیماری کا تناسب بھی وہی ہے، جو عام بچّوں میں پایا جاتا ہے۔

س:اس طریقۂ علاج کے ذریعے اپنی مرضی سے بچّے کی جنس کا تعیّن بھی کیا جاسکتا ہے ؟

ج:جی ہاں، ایسا ممکن ہے۔ اس جدیدتیکنیک کے ذریعے اپنی مرضی سے بچّے کی جنس کا تعیّن کیا جاسکتا ہے۔اصل میں جب ایک مخصوص عمل اپنے ارتقائی مراحل طے کررہا ہوتا ہے، تب ایک لیزر تیکنیک کے ذریعے خلیوں کو الگ کرکے جینز کا مطالعہ کیا جاتا ہے اورخلیے میں موجود جینیاتی مواد کی جانچ ہی سے جنس کا تعیّن کیا جاسکتاہے۔

س:حمل ضائع ہونے کے امکانات کتنے فی صد پائے جاتے ہیں اور کیا ایک سے زائد بچّے بھی پیدا ہو سکتے ہیں؟

ج: حمل ضائع ہونے کے امکانات 10سے 15فی صد تک پائے جاتے ہیں، جب کہ یہ ایک ایسا جدید طریقۂ علاج ہے، جس میں شادی شدہ جوڑا اپنی مرضی سے بچّوں کی تعداد کا تعین کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس تیکنیک سے حاصل ہونے والے حمل ایک سے زائد ہوں۔

س: ایسی خواتین جن کی بچّہ دانی کسی وجہ سےنکال دی گئی ہو، توکیا وہ بھی آئی وی ایف سے مستفید ہوسکتی ہیں؟

ج: قطعاً نہیں، کیوں کہ جب بچّہ دانی نہ رہے، تو انڈے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے، تو ایسی صُورت میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی ممکن ہی نہیں۔

س: کیا "DNA sequencing"بھی آئی وی ایف ہی کا ایک حصّہ ہے؟

ج: اصل میں DNA sequencingکے ذریعے جنین کروموسومزکی تعداد،جو بار آوری کے نتیجے میں تیار ہوتے ہیں، گنی جاسکتی ہے۔ اگر ان میں ایب نارمل کرموسومز ہوں، تو وہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی ناکامی کی اہم وجہ بن جاتے ہیں۔

ماہرین کے خیال میں30 فیصد جنین میں یہ نقص ہوسکتا ہے۔ اگر صحت مند جنین منتخب کرکے رحمِ مادر میں منتقل کیا جائے، توآئی وی ایف کی کام یابی کا تناسب مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

س:ٹیسٹ ٹیوب بے بی میں ایمبریو(Embryo) نارمل نہ ہو، تو کیا پہلے سے تشخیص ممکن ہے اور اسے ضایع کرواکے دوبارہ آئی وی ایف کراویا جاسکتا ہے؟

ج: دیکھیں سیدھی سی بات ہے کہ اگر جنین کے خلیوں میں کرموسومز کی تعداد درست نہ ہو، تو اس کے نتیجے میں جنین کی پرورش ایب نارمل ہی ہوگی، ایسے جنین یا تو ضایع ہوجاتے ہیں یا پھرحمل ٹھہر تو جاتا ہے، مگرساکت ہوجاتا ہے۔ تاہم، پی جی ڈی(Preimplantation genetic diagnosis) ایک ایسی جدید تیکنیک ہے، جس کے ذریعے ایب نارمل ایمبریومیں موجود کروموسومزکی جانچ کی جاسکتی ہے۔

س:عوام النّاس کے لیےکوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: کوشش کریں کہ بچپن ہی سے صحت مند طرزِ زندگی اپنائیں، جس کے لیے ماؤں کو چاہیے کہ ان کا بچّہ بیٹا ہو یا بیٹی اُسے متوازن غذا کھلائیں، خاص طور پر دودھ، پھل، سبزیاں، اناج اور سویا بین استعمال کروائیں، جب کہ مرغّن غذائیں کم سے کم کھانے دیں۔

زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ ان سے اجتناب برتا جائے اور اپنے بچّے کو روزانہ ورزش کی عادت بھی ڈالیں۔

مزید خبریں :