30 اکتوبر ، 2019
اک بہت ہی بنیادی اور سادہ سا سوال ہے جو مختلف قسم کے سیانوں سے پوچھ رہا ہوں لیکن جواب ندارد۔ کوئی تو ہو جو مجھے یہ معمولی سی بات سمجھا دے کہ جب تک پاکستان کی اقتصادی شرح نمو اس ملک کی ’’آبادی‘‘ شرح نمو کے ساتھ مکمل طور پر میچ نہیں کرے گی، پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہو گی تو عام آدمی کو ریلیف کیسے ملے گا؟ جبکہ یہاں تو کہانی ہی بالکل الٹ ہے کہ معاشی شرح نمو نو سال کی کم ترین سطح پر ہے یعنی عملاً منجمد ہو چکی ہے اور مہنگائی بری طرح ٹوٹے ہوئے چھتر کی طرح بڑھتی جا رہی ہے۔
قارئین!جب تک اقتصادی شرح نمو اور آبادی شرح نمو کا جائز ناجائز تعلق اور تال میل طے نہیں ہو جاتا تب تک میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں یا نہیں کہ ہر وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے جو عوام کو آنے والے دنوں میں معاشی استحکام کی خوشخبریاں سنا رہا ہے۔
یہ ناممکن ہو گا۔ اک ایسا ہدف ہے، جسے حاصل کرنا ممکن ہی نہیں۔حکومت کی کوئی سوکن نہیں، سٹیٹ بینک کہہ رہا ہے کہ معاشی نمو نچلی ترین سطح پر ہے اور مہنگائی بارہ فیصد تک پہنچ جانے کے امکانات روشن ہیں۔ مزید خوشخبریاں یہ ہیں کہ برآمدات 25.9ارب ڈالر کے اردگرد رہیں گی۔
ٹیکس ہدف حاصل کرنا کسی چیلنج سے کم نہ ہو گا۔سرمایہ کاری جمود کا شکار۔پانی کی قلت سے زرعی شعبہ بے حال ہو رہا ہے۔توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
مالیاتی خسارہ تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ان حالات میں تو کوئی پشتینی اور پیدائشی جھوٹا بھی کسی قسم کی ’’معاشی نوید مسرت‘‘ سنانے کی جرأت نہیں کر سکتا تو یہ کون لوگ ہیں جو پے در پے ایسا جھوٹ بول رہے ہیں جو قدم قدم پر رنگے ہاتھوں پکڑا جائے گا۔
یہ حقیقت کوئی نہ بھولے کہ دنیا کا سب سے زیادہ چرب زبان آدمی بھی کسی بھوکے کو اس بات پر قائل نہیں کر سکتا کہ اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے اس لئے ممکن ہو تو ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں جیسی گپیں چھوڑنے سے بچا جائے کیونکہ ایسے کھوکھلے دعوے عوامی فرسٹریشن اور غصہ میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔
حقیقی زمینی صورتحال تو یہ ہے کہ معیشت تھوڑی بہت سنبھل بھی جائے تو اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں، تھوڑی بہت سے کچھ زیادہ بہتر بھی ہو جائے تو عام آدمی کو قرار نصیب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ آبادی کا عفریت اس ’’ترقی‘‘ کا لقمہ لیتے ہی مزید بھوک کی دہائی دے گامیں حیران ہوں کہ تبدیلی سرکار پاپولیشن مینجمنٹ کا سوچے بغیر معاشی استحکام کا تصور بھی کس طرح کر سکتی ہے اور کمال یہ کہ میں نے ان میں سے کسی ایک کی زبان سے بھی اس تضاد کا ذکر نہیں سنا کہ جب تک اس بے لگام آبادی کو لگام نہیں دی جاتی، اقتصادی زبوں حالی کو لگام دینا ممکن ہی نہیں۔
میں نے تین مختلف ماہرین اقتصادیات سے بات کی جو سو فیصد غیرسیاسی اور نصابی قسم کے لوگ ہیں۔ کسی ایک کے پاس بھی کوئی ایسا جواب نہیں جو مطمئن کر سکے۔
مسئلہ پانی کا ہو یا دہشت گردی کا، کرپشن کا ہو یا تجاوزات اور ناجائز قبضوں کا------ ہم لوگ بر وقت ری ایکٹ نہیں کرتے، تب تک ہوش نہیں آتا جب تک پانی سر سے گزرنا شروع نہیں ہو جاتا۔
شاید ان سیاسی نابغوں اور نوگزوں نے یہ محاورہ بھی نہیں سنا کہ وقت پر لگایا جانے والا ایک ٹانکا بعد کے نو ٹانکوں کے تردد سے بچا لیتا ہے لیکن یہاں تو یہ مسئلہ عمل کیا گفتگو تک میں دکھائی نہیں دیتا تو لکھ رکھیں کہ اقتصادی حالات کسی معجزے کے نتیجہ میں نارمل ہو بھی گئے تو عوام کے لئے نہ صرف ’’ابنارمل‘‘ ہی رہیں گے بلکہ تیزی سے ایمرجنسی کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔
بندہ پوچھے کسی اور سے نہ سہی اپنے سابقہ مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش سے ہی سبق سیکھ لو کہ آبادی کے اس عفریت کو قابو کیسے کرنا ہے۔
کچھ اور مسلمان ملکوں نے بھی کامیابی کے ساتھ اس منہ زور گھوڑے پر کاٹھی ڈالی ہے لیکن بنگلہ دیش مسلمان ہی نہیں دو عشرہ پلس تک ہمارے ساتھ بھی رہا ہے۔ خود کسی جوگے نہیں تو انہی سے رہنمائی اور تعاون مانگ لو ورنہ کیس ’’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی‘‘ سے بھی بدتر ہو جائے گا۔
22کروڑ تو سنبھالے نہیں جا رہے، نہ روٹی نہ کپڑا نہ مکان نہ لاء اینڈ آرڈر نہ امن اور امان نہ تعلیم نہ علاج نہ روزگار تو کبھی تنہائی میں بیٹھ کر سوچو کہ جب کل کلاں یہ 22کروڑ 32کروڑ ہو گئے تو کیا ہو گا؟ اور پھر جب یہی 32کروڑ 42کروڑ ہو گئے تو بندہ بندے کو نہ کھائے گا تو کیا کرے گا؟
سچ پوچھو تو یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے لیکن ان کو دکھائی نہیں دے رہا جن کی آنکھوں پر چربی چڑھی ہے اور عقلوں پر دبیز پردے پڑے ہیں۔بدنصیب ہیں وہ لوگ جن پر وژن (VISION) سے عاری لوگ سواری کر رہے ہوں۔ جوناتھن سوئفٹ نے کہا تھا"VISION IS THE ART OF SEEING THINGS INVISIBLE." یہ کیسے لوگ ہیں جن کے لئے 22کروڑ لوگ invisibleہیں اور دکھائی نہیں دے رہے جو کل 32اور پرسوں 42کروڑ ہو گئے تو کیا ہو گا؟(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)