02 نومبر ، 2019
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ و وزیردفاع پرویز خٹک نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان کے بیان کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔
پرویز خٹک نے دیگر حکومتی کمیٹی کے ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کا استعفیٰ یا دوبارہ انتخابات تو ناممکنات میں سے ہیں جبکہ ہم کارکنوں کو اکسانے پر عدالت جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ فضل الرحمان کا یہ بیان کہ عوام وزیراعظم کے گھرجاکر ان سے استعفیٰ لیں گے، یہ بغاوت کے زمرے میں آتا ہے، یہ لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں اور غلط سمت لے جارہے ہیں، اس وقت سارے ادارے ایک پیج پرہیں اس کا مطلب ہے حکومت صحیح چل رہی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے 2 روز کی مہلت دی تھی اور خطاب میں پنڈال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تھا کہ عوام کا یہ سمندر طاقت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کے گھر جاکر وزیراعظم کوگرفتار کرلے۔
وزیردفاع نے کہا کہ اپوزیشن نے ایک معاہدہ کیا ہے، اگر آگے بڑھیں گے تو اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے، ہم اس معاہدے پر کھڑے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گراؤنڈ کا انتخاب اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے خود کیا تھا، ہم نے ان سے کہا تھا کہ گراؤنڈ سے متعلق فیصلہ انتظامیہ کرے گی، ہمارے رہبر کمیٹی سے اب بھی رابطے ہیں لیکن گزشتہ روز جلسے میں جو تقریریں کی گئیں اس پر ہمیں افسوس ہوا ہے۔
پرویزخٹک کا کہنا تھا کہ حکومت نے کھلے دل سے ان کو اسلام آباد آنے دیا، اب اگر یہ دھمکیاں دے رہے ہیں تو پھر یہ زبان کے کچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاہدے پر قائم نہیں رہتے تو پھر یقیناً ایکشن لیا جائے گا۔
حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ ’ہم نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے تو بتائیں ہم نے کیا خلاف ورزی کی؟ سچ کو سچ بتائیں تاکہ ملک میں افرا تفری کا ماحول نہ بنے‘۔
شہباز شریف کی اداروں کی سپورٹ ہونے کے حوالے سے تقریر پر پرویز خٹک نے کہا کہ ’ان کو اپنے گریبان میں دیکھنا چاہیے تھا، اس دفعہ نیوٹرل ماحول میں انتخابات ہوئے یہ ہار گئے، ان کو اسی کی تکلیف ہے‘۔
سربراہ حکومتی کمیٹی کے مطابق پیپلزپارٹی مذہبی کارڈ کے استعمال کے خلاف ہونے کی دعویدار تھی لیکن کل مولانا صاحب نے کہا کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کریں گے، پیپلزپارٹی والے وہاں موجود تھے اور ہنس رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ 30 یا 40 ہزار لوگ آئیں اور تختہ الٹ دیں، ملک کے معاشی حالات خراب تھے اور کاروبار بند تھا جس پر حکومت نے سخت فیصلے کیے۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ حکومت صرف عمران خان یا میں نہیں بلکہ تمام ادارے حکومت ہیں، یہ وقت نہیں، ان کے پاس ایسا کوئی مسئلہ یا ڈیمانڈ نہیں جس پر ہمیں فکر ہو، ان کی کوشش صرف یہ ہے کہ حکومت کو چلنے نہ دیا جائے کیوں کہ ان کو ڈر ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی میں کامیاب نہ ہوجائے۔
’فوج نے کیا (ن) لیگ کو اسپتال بنانے، اسکول بنانے یا پولیس بہتر کرنے سے روکا تھا؟‘
اس موقع پر حکومتی کمیٹی کے رکن و سابق وزیرخزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ٹھیک کہا کہ ہماری کارکردگی ہے، ہم اچھا کریں یا برا، تنقید ہم پر ہوگی یہ بتائیں انھوں نے کیا کیا؟ فوج نے کیا (ن) لیگ کو اسپتال بنانے، اسکول بنانے یا پولیس بہتر کرنے سے روکا تھا؟ مہنگائی کی بات کرنے والے اپنی ماضی ضرور یاد کرلیا کریں۔
انہوں نے کہا کہ مولانا نے مذہبی کارڈ کی بات کی تو ان کے ساتھ بلاول کھڑے مسکرا رہے تھے۔
خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہوا تھا جو سکھر، ملتان، لاہور اور گجرانوالہ سے ہوتا ہوا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچا۔
مارچ کے شرکاء نے پشاور موڑ پر گراؤنڈ میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور یکم نومبر کو خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ کے لیے اتوار تک کی مہلت دی ہے۔