05 نومبر ، 2019
سیاست میں جہاں ’’گنتی‘‘ اور تعداد اہم ہوتی ہے وہاں فنِ سیاست سے آگاہی تعداد سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے۔ فنِ سیاست کیا ہے؟ ہر ملک اور ہر خطۂ ارض کا فنِ سیاست الگ الگ ہوتا ہے اور اُس ملک کی مٹی سے جنم لیتا اور پروان چڑھتا ہے۔
ہمارے ہاں فنِ سیاست کا مطلب ہے جوڑ توڑ، صحیح وقت پہ صحیح پتے کھیلنا، موقع محل کے مطابق حکمتِ عملی اختیار کرنا، گفتگو کے ذریعے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا، اپنی اہمیت اجاگر کر کے اپنے آپ کو فیصلہ کن قوت بنا لینا، داؤپیچ سے مخالف کو تھلے لگانا وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے اپنی تاریخ میں بار بار دیکھا ہے کہ بعض اوقات کم تعداد اور اسمبلیوں میں کم اراکین والے اپنے ’’جثے‘‘ یعنی اپنے قد و قامت سے زیادہ حصہ لے جاتے ہیں۔
اگر ان کی نشستوں کو دیکھیں تو ان کو ایک آدھ وزارت ملنی چاہئے لیکن جوڑ توڑ اور سیاسی مہارت کے زور پر وہ بہت کچھ لے جاتے ہیں۔ پنجاب کے حوالے سے چوہدری برادران اس کی ایک مثال ہیں ورنہ وفاقی سطح پر نگاہ ڈالیں تو ایم کیو ایم اور کئی چھوٹی پارٹیاں سیاسی داؤ پیچ کے ذریعے اپنے جثے سے کہیں زیادہ حصہ لینے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔
سادہ سی بات ہے کہ یہ پارٹیاں ملکی یا صوبائی سطح پر کبھی بھی اکثریت لے کر اپنی حکومتیں نہیں بنا سکتیں چنانچہ ان کی حکمتِ عملی فقط اتنی سی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی سودے بازی کے ذریعے اقتدار میں شامل ہو جائیں۔ اِن پارٹیوں کو ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی سیاسی جنگ میں نشانہ نہیں بنتیں اور نہ ہی حکومتی ناکامی کا الزام بانٹتی ہیں کیونکہ حکومتی نالائقی، خام کارکردگی اور غلط پالیسیوں کا الزام ہمیشہ اکثریتی پارٹی یعنی حکمران پارٹی کو ملتا ہے۔
ہماری تاریخ کی ایک کرامت یہ بھی ہے کہ یہاں کبھی کبھی حالات ایسا رخ یا شکل اختیار کر جاتے ہیں جس سے فائدہ اٹھا کر اقلیتی پارٹی کے گھاک سیاستدان جوڑ توڑ کر کے کرسیٔ اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار ’’بدلنے‘‘ کی سفارش کرنے والے کچھ متبادل نام بھی اچھال رہے ہیں۔
ایک طاقتور گروہ گزشتہ کارکردگی کی تعریف کرکے چوہدری پرویز الٰہی کا نام تجویز کر رہا ہے۔ بلاشبہ چوہدری برداران سمجھدار، گہرے اور گھاک سیاستدان ہیں اور اپنے ’’جثے‘‘ سے زیادہ حصہ لینے کا فن بھی جانتے ہیں۔
موجودہ سیاسی تعطل یا سیاسی بحران آپ کے سامنے ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن ایک بڑے اجتماع اور ہزاروں حمایتوں کے ساتھ اسلام آباد میں موجود ہیں۔ اُن کو اچھی طرح علم ہے کہ حکومت اُن کے دونوں مطالبات تسلیم نہیں کرے گی جن پر وہ اصرار کر رہے ہیں۔
دوسری طرف حکومت کے پاس نہ دینے کو کچھ ہے اور نہ ہی عمران خان کی ضد کچھ دینے پر آمادہ ہے۔ نتیجے کے طور پر ایک بحران کی کیفیت ہے جسے تجزیہ کار بندگلی قرار دے رہے ہیں۔ یہ بندگلی اس لئے ہے کہ عمران خان سیاست کے داؤ پیچ، جوڑ توڑ اور لچک کے اصولوں سے آگاہ نہیں۔ وہ اپنی شہرت، مقبولیت اور قومی ہیرو کے حصار میں بند ہے۔ اس طرح کے مائنڈ سیٹ والا حکمران مٹھی بند رکھتا ہے جبکہ بحران اور سیاسی دباؤ لچک کا تقاضا کرتا ہے۔ سیاست کو بندگلی میں پا کر چوہدری برادران نے اپنا کارڈ عقلمندی اور چابکدستی سے کھیلا ہے۔
ایک طرف مولانا فضل الرحمٰن کو میلہ لوٹنے کا قصیدہ سنا کر اسے بلند پہاڑی کی چوٹی پہ بٹھا دیا ہے اور مولانا کےقطعی لب و لہجے کے غبارے میں ہوا بھر دی ہے۔ دوسری طرف فوج کے حوالے سے نصیحت کر کے فیصلہ ساز قوتوں کو اپنی جانب راغب کر لیا ہے۔ چوہدری شجاعت حسین ایک سمجھدار، تجربہ کار اور مہمان نواز سیاستدان ہیں اور وہ اپنے اندازِ سیاست کی بنا پر سب کو قابلِ قبول رہے ہیں۔ والدِ گرامی کے سیاسی قتل کے باوجود انہوں نے انتقام یا انتہا کی راہ نہیں اپنائی۔
اس اندازِ سیاست کا انہیں ہمیشہ فائدہ ہوا۔ تاریخی طور پر وہ ایوب خان سے لے کر عمران خان تک ہمیشہ کسی نہ کسی طور اقتدار میں شریک رہے ہیں۔ وہ مشرف کے ستون بھی بنے اور زرداری کی بیساکھی بھی اور اب عمران کے ساتھی بھی۔ موجود بندگلی کی سیاست میں چوہدری برادران مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کر کے نہ صرف سیاسی مسیحا بن کر ابھرے ہیں بلکہ اگر وہ اس بحران سے کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو مقتدرہ قوتیں انہیں پنجاب کی حاکمیت سونپنا پسند کریں گی۔ گھاٹے میں صرف کشمیری رہے ہیں۔ مودی نے پاکستان کی توجہ داخلی محاذ پر مرکوز کرنے کے بعد کشمیر جموں اور لداخ کے گورنر تعینات کر دیئے ہیں اور یہ علاقے بھارت کے صوبے بنا دیئے ہیں۔ حکومت پاکستان اس پر جتنا احتجاج کر سکتی تھی اور دنیا بھر میں شور مچا سکتی تھی وہ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کی نذر ہو گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن بھی گھاک سیاست کے ذریعے چھوٹے ’’جثے‘‘ کے باوجود زیادہ حصہ لینے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے آزادی مارچ کی طاقت نے سیکولر اور مذہب بیزار دانشوروں کو پریشان کر دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اکیسویں صدی کے بیس سال گزرنے کے بعد بھی ’’مولوی‘‘ پاکستان کی ایک موثر قوت ہے۔ ماڈرن تعلیم اور سائنس نے اُن کے حلقہ اثر کا کچھ نہیں بگاڑا۔ سیاسی دھرنے اور مارچ اپنے اثرات مرتب کر جاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن جیسے منجھے ہوئے سیاستدان کو علم تھا کہ حکومت نہ استعفیٰ دے گی نہ فوری انتخابات پر راضی ہو گی۔ اُن کو علم ہے کہ آزادی مارچ کے آگے بڑھنے کا نتیجہ تصادم ہو گا جس کے نتائج حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے خطرناک ہوں گے۔ دونوں بڑی پارٹیاں اپنے آپ کو تصادم سے الگ رکھنا چاہتی ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن کو اس حقیقت کا بھی علم ضرور ہو گا۔ مولانا کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟ دونوں مطالبات کے استراد کے بعد وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ وہ اپنے مقاصد میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں اور حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)