حکومت کے پاس استعفے کے علاوہ دینے کیلئے کیا ہے؟

دونوں جانب سے مذاکراتی ٹیموں کی بات چیت جاری ہے: فائل فوٹو

مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ دھرنا جاری ہے جسے وہ تحریک بھی کہتے ہیں۔ یہ ان کے منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کی پہچان ہے۔ گو اکثر تجزیہ کار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ انہوں نے وزیراعظم کا استعفیٰ طلب کرکے انتہائی پوزیشن لے لی ہے، دوسری طرف حکومت نے اب تک اپوزیشن کی ہر بات مسترد کرکے ایک انتہائی پوزیشن لی ہوئی ہے۔

وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ این آر او نہیں دیں گے جس سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ وہ اپوزیشن کی کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں جانب سے مذاکراتی ٹیموں کی بات چیت جاری ہے لیکن میڈیا پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اندرونِ خانہ کچھ نہیں۔

یہ کہنا کہ اپوزیشن کا ایجنڈا ہمیں معلوم نہیں اور دوسری طرف استعفیٰ کے امکان کو ہر بیان میں مسترد کرنا، اگر یہ ایجنڈا نہیں تو مسترد کیوں؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس استعفے کے علاوہ دینے کے لئے کیا ہے اور اپوزیشن یا خود مولانا کس بات پر نرم ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے آزادی مارچ یا دھرنے کو موخر کر کے واپس چلے جائیں۔

جس بدترین صورتحال سے معیشت گزر رہی ہے اس سے اصل ریلیف مولانا یا حکومت کو نہیں، عوام کو ملے گا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق صرف 4فیصد افراد کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ اب کرپشن رہ گیا ہے جبکہ 53فیصد لوگ مہنگائی کی دہائی دے رہے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں حکومت جس مینڈیٹ پر آئی تھی یعنی کرپشن ختم کرنا، وہ اب عوام کا مسئلہ نہیں رہاپھر حکومت اس پوزیشن میں بھی قطعاً نہیں کہ وہ اپنے تمام وعدوں کے باوجود کوئی فوری ریلیف مہنگائی یا معیشت کے دوسرے شعبوں کو فراہم کر سکے جس میں سرِفہرست روزگار ہے۔ ترقی کی شرح جس سے متعلق وہ سارے عالمی ادارے جن سے حکومت خود مدد لے رہی ہے، رپورٹ کر رہے ہیں کہ یہ علاقے اور ملک کی تاریخ میں کم ترین سطح پر رہے گی، یہ عرصہ مہینے دو مہینے کا نہیں بلکہ تقریباً اس حکومت کی پوری مدت کا ہے۔

وزیراعظم عوام کو بار بار صبر کی تلقین کررہے ہیں، یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ کسی کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں جس سے کرشمہ دکھایا جاسکے۔

اب سوال یہ ہے کہ حکومت کے پاس کیا ایسی چیز ہے جو وہ مولانا اور اپوزیشن کو پیش کر کے درمیانہ راستہ اختیار کر سکے، میرے نزدیک وہ ہے مفاہمت۔ مشکل یہ ہے کہ خان صاحب نے مفاہمت کو این آر او کا نام دے کر اپنے آپ کو بند گلی میں دھکیل لیا ہے۔ جمہوری قوتوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے کچھ لو اور کچھ دو قسم کی مفاہمت وہ این آر او نہیں ہوتی جوکسی ڈکٹیٹر اور سیاسی لیڈر کے درمیان طے پاتا ہے۔

آٹھ دس سال کی حکومت کے بعد اس قسم کا این آر او آمروں کی مجبوری بن جاتا ہے لیکن خان صاحب کو اگر اپنی سیاسی حمایت پر اعتماد ہے تو پھر اپوزیشن سے بات چیت اور ان کے معاملات میں لچک دکھانا نہ تو این آر او ہے اور نہ ہی کوئی ریلیف۔ یہ سیاسی طور پر ملک کو چلانے کا معروف راستہ ہے۔

اس درمیانے راستے پر عمل کیسے ہو، یہ سوال اہم ہے۔ دھرنے اور آزادی مارچ میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں شریک ہیں اور ان کے جیل سے باہر لیڈر گرما گرم تقریریں کر کے ایک واضح کمٹمنٹ بھی عوام کے جمِ غفیر کے سامنے کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ اس وقت جیل میں یا عارضی رہائی پر باہر ہے۔

نواز شریف موت اور زندگی کی کشمکش سے دوچار ہیں۔ دوسری جانب سابق صدر زرداری صاحب بھی قید میں ہیں اور سخت بیمار بھی۔ اب ان دونوں قومی پارٹیوں کی دوسرے درجے کی قیادت فیصلے کر رہی ہے۔ گو وہ اس سلسلے میں نواز شریف اور زرداری کا نام استعمال کرتے ہیں لیکن عوام پر اصل گرفت تو انہی دونوں کی ہے۔

فیصلہ سازبھی یہی ہیں۔ اگر اپوزیشن اور حکومت کو کوئی بند گلی سے نکال سکتا ہے تو وہ یہی ٹاپ لیڈر شپ ہے۔ ہم یہاں عرب اسپرنگ کا ذکر کریں گے جو تحریر اسکوائر پر جمِ غفیر لانے میں کامیاب تو ہوگیا لیکن ملک و قوم کو افراتفری میں مبتلا کر گیا کہ اس کے پاس کوئی سیاسی لیڈر شپ نہ تھی جو اس انقلاب کو جمہوری سیاسی استحکام میں ڈھال سکتی۔

عمران خان جو یوٹرن لینے کو ایک بڑے لیڈر کی سب سے بنیادی اور اپنی فخریہ سیاسی نشانی بتا چکے ہیں،شاید وقت آگیا ہے کہ وہ ایک اور یوٹرن لیں اور سیاسی مفاہمت کو کوئی اور نام دینے کے بجائے قومی مفاہمت کہتے ہوئے اپوزیشن کی اصل لیڈر شپ سے بات کریں۔ اس کے قانونی راستے نکالنا حکومت کے لئے کچھ مشکل نہیں۔

کیا انہیں اندازہ نہیں کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت پھسلتی ہے تو کون پنجاب اور وفاق میں اس کی جگہ لے سکتا ہے؟ پھر یہ لیڈر شپ حکومت اور گورننس کا طویل تجربہ رکھتی ہے۔ بدترین مشکلات سہنے کے باوجود اس نے اب تک کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کی جس سے افراتفری پھیلے اور پہلے سے کمزور معیشت کو تباہی کے نہج پر پہنچا دیا جائے۔

یہ بتانا مشکل ہے کہ حکومت کو سخت گیری کے مشورے کون دے رہا ہے، کون یہ تاثر دے رہا ہے کہ دروازے بند ہیں۔ جتنی جلد ہو سکے حکومت کو ٹاپ سیاسی لیڈر شپ سے بلا جھجک رابطہ کرنا چاہئے۔ درمیانی راستہ آسان بھی ہے اور واضح بھی۔ حکومت کو ڈی چوک اور بغاوت کے مقدموں کے چکر میں پڑنے کے بجائے اپوزیشن کے ان لیڈروں سے رابطہ کرنا چاہئے جن کے پاس اس مسئلے کے حل کی فوری کنجی ہے۔

بہت سے اہلِ سیاست و دانش اسے جھکنا کہیں گے، ناتجربہ کار اسے شکست سے تعبیر کریں گے لیکن قوم کو کسی آزمائش میں ڈالنے سے یہ بدرجہ بہتر ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :