11 نومبر ، 2019
حیدرآباد دکن: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کاکہنا ہے کہ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں اور ہم زمین کے لیے نہیں بلکہ مسجد کے لیے لڑرہے ہیں۔
حیدرآباد دکن میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسد الدین اویسی نے کہاکہ اگر بابری مسجد غیر قانونی ہے تو پھر ایل کے ایڈوانی اور دیگر کا اس سلسلے میں کیوں ٹرائل کیا جارہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر بابری مسجد قانونی تھی تو پھر اس کی زمین کو کیوں ان کے حوالے کیا گیا جنہوں نے اس کو گرایا؟ اور اگر یہ غیر قانونی تھی تو پھر یہ کیس کیوں چل رہا ہے؟ اور ایل کے ایڈوانی کے خلاف کیوں کیس ختم ہوا؟ اگر یہ مسجد قانونی ہے تو اسے ہمارے حوالے کیا جائے۔
اسد الدین اویسی کا کہنا تھا یہ ہمارا بنیادی سوال ہے، ہم بابری مسجد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں، بابری مسجد میرا قانونی حق ہے، میں زمین کے لیے نہیں بلکہ مسجد کے لیے لڑرہا ہوں۔
اس سے قبل ٹوئٹر پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ آج مسلمان کیا دیکھتے ہیں، یہاں کئی سالوں سے ایک مسجد قائم تھی جسے اب گرادیا گیا ہے اور اب عدالت اس جگہ ایک عمارت کی تعمیر کی اجازت دے رہی ہے۔
اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ مسجد کے لیے متبادل زمین دے کر ہماری تضحیک کی جارہی ہے، ہمارے ساتھ فقیروں والا سلوک مت کریں، ہم بھارت کے باعزت شہری ہیں اور اپنے قانونی حق کی جنگ لڑرہے ہیں، ہم نے خیرات کی نہیں انصاف کی مانگ کی ہے۔
بابری مسجد کا پس منظر
1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔
برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کیلئے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔
بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1980 میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع کی تھی۔
1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا جب کہ اس دوران 2 ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں، بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی کو اس سلسلے میں عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔
حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کیلئے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر کو بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے مسجد ہندوؤں کے حوالے کردی اور مرکزی حکومت ٹرسٹ قائم کرکے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے مسجد کے لیے مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔