پاکستان
Time 13 نومبر ، 2019

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز پر اٹارنی جنرل کا اعتراض مسترد کر دیا

فوٹو: فائل

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر  اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان کا اعتراض مسترد کر دیا۔

فرحت اللہ بابر، روبینہ سہگل، بشریٰ گوہر، افراسیاب خٹک کی درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے فوج کو سول انتطامیہ کی مدد کے لیے بلانے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس کے علاوہ بینچ میں جسٹس مشیر عالم، عمر عطا بندیال، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شامل تھے۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک فاضل جج کو اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے کیونکہ جج نے وفاق، صدر، وزیراعظم اور میرے بارے میں ایک مقدمے میں الزامات عائد کیے۔

انور منصور خان نے کہا کہ فاضل جج میرے، وفاق، وزیراعظم اور صدر سے تعصب رکھتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراض پر علیحدگی کا فیصلہ جج نے خود کرنا ہوتا ہے، یہ طے شدہ قانون ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ جس کیس کی بات کر رہے ہیں وہ الگ کیس ہے، ہر کیس کا دوسرےکیس سے تعلق نہیں ہوتا۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ معاملہ تو خیبر پختونخوا سے متعلق ہے، وفاق کا نہیں، یہ کیس کسی انفرادی شخص کے خلاف نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق موجودہ کیس میں پارٹی ہے اور آئین کے آرٹیکل 265 کے تحت فوج کو سول حکومت کی مدد کی اتھارٹی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں اس عدالت کے سامنے خود کو مطمئن محسوس نہیں کر رہا، مجھے جج پر اعتراض کا حق ہے اور میں وہ حق استعمال کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا ہمیں علم ہے کہ فاضل جج صاحب نے لارجر بینچ میں آپ کو نام سے فریق بنایا ہے، میں نے تجویز کیا تھا کہ ایک آئینی بینچ ہو جو صرف آئینی معاملات دیکھے، شفافیت کے لیے یہ بینچ تشکیل دیا جس میں 5 سینئر ترین جج ہیں۔

انور منصور خان نے مؤقف اپنایا کہ معزز جج کی حکومت سے متعلق ایک فکس رائے ہے، جج نے کہا کہ اٹارنی جنرل نالائق ہے، ایسا جج اوپن مائنڈ کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتا ہے۔

جسٹس گلزاز احمد نے کہا کہ وہ اس عدالت کے جج ہیں، آپ ان کے سامنے بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں، جس پر انور منصور خان نے کہا میں ہر وہ اعتراض کروں گا جس کا مجھے حق حاصل ہے، جج صاحب کو بینچ سے اٹھ کر چلے جانا چاہیے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ حبس بیجا کا کیس ہے، عدالتی پریکٹس ہے کہ اگر کوئی غیر قانونی گرفتار ہو تو صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اٹارنی جنرل کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی مقدمے میں کہی گئی بات دوسرے مقدمے کو متاثر نہیں کرتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جج اپنے حلف کے تحت عدالتی فرائض انجام دیتا ہے، جج کا حلف ہے کہ وہ بلاخوف وخطر، نیک نیتی سے اپنے فرائض انجام دے گا، اب آپ اپنے اعتراضات کو بھول جائیں۔

مزید خبریں :