Time 14 نومبر ، 2019
پاکستان

نیب کا اسحاق ڈار سے 50 کروڑ روپے نقد اور جائیداد کی ریکوری کا دعویٰ


قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے 50 کروڑ روپے کی نقد رقم اور جائیداد کی ریکوری کا دعویٰ کیا ہے۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب لاہور آفس کا دورہ کیا جہاں ڈی جی نین لاہور شہزاد سلیم نے انہیں میگا کرپشن کے مقدمات میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔

اس موقع پر چیئرمین نیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ نیب لاہور نے اسحاق ڈار کے بینک اکاؤنٹس سے 50 کروڑ روپے کی رقم برآمد کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی ہے اور اس کے ساتھ لاہور گلبرگ میں اسحاق ڈار کا کروڑوں روپے مالیت کا چار کنال کا گھر بھی پنجاب حکومت کے حوالے کیا جارہا ہے۔

چیئرمین نیب نے بتایا کہ گھر فروخت کرکے حاصل ہونے والی رقم حکومت کے خزانے ميں جمع کرائی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب پاور ڈیویلپمنٹ کے سابق چیف فنانشل آفیسر اکرام نوید سے ایک ارب روپے کی جائیدادیں برآمد کرکے پنجاب حکومت اور ایرا حکام کے حوالے کردی گئيں ہیں۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب افسران کی وابستگی کسی سیاسی جماعت، گروہ یا فرد سے نہیں، ان کا مقصد صرف اور صرف ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہے، میگا کرپشن کے مقدمات کی تحقیقات میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ نیب کسی کا چہرہ نہیں کیس دیکھ کر اپنی تحقیقات کا قانون اور شواہد کی بنیاد پر آغاز کرتا ہے، جن کیسز میں شہادتیں موجود ہیں وہاں ٹھوس اورمضبوط کیس بنائے جائیں، نیب افسران کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنے فرائض آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر انجام دیں، چند ماہ میں نیب نے 71 ارب کی خطیر رقم قومی خزانےمیں جمع کرائی جس میں بڑا کردار نیب لاہور کا ہے۔

نیب لاہور کے ڈی جی شہزاد سلیم نے چیئرمین نیب کو شہبازشریف، حمزہ شہباز، سلمان شہباز و دیگرکیخلاف مبینہ منی لانڈرنگ و آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی تحقیقات پربریفنگ دی۔

اس کے علاوہ چوہدری شوگر ملز کیس میں ملزم نوازشریف، مریم نواز، ملزم یوسف عباس اور ملزم عبدالعزیز کیخلاف مبینہ منی لانڈرنگ کی انکوائری پر بریفنگ دی گئی۔

پنجاب پاورڈویلپمنٹ کمپنی کیس میں ملزم اکرام نوید کیخلاف مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی تحقیقات پر بھی چیئرمین نیب کو بریفنگ دی گئی۔

اس موقع پر چیئرمین نیب نے ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی سربراہی میں نیب لاہورکی کارکردگی کوسراہا۔

اسحاق ڈار کیس کا پسِ منظر

واضح رہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کر رکھا ہے جس میں انہیں مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا کیس احتساب عدالت میں چل رہا ہے اور وہ کئی پیشیوں پر احتساب عدالت میں پیش بھی ہوئے تاہم وہ نومبر 2017ء میں علاج کی غرض سے لندن گئے تھے اور اس کے بعد سے وطن واپس نہیں آئے۔

نیب نے اسحاق ڈار کو انٹرپول کی مدد سے وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ سپریم کورٹ نے بھی انہیں 8 مئی 2018 کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا تاہم ان کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ بیماری کے باعث اسحاق ڈار عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔

اس کے علاوہ اسحاق ڈار کے خلاف پارک اکھاڑ کر رہائش گاہ کے لیے سڑک بنانے کا کیس بھی چل رہا ہے اور اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے ایل ڈی اے حکام کو پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

سابق وزیر خزانہ کو وطن واپس لانے کے لیے ایف آئی اے کی جانب سے ریڈ وارنٹ جاری کرتےہوئے انٹرپول کو درخواست دی گئی تھی تاہم 7 نومبر کو  انٹرپول نے حکومت پاکستان کی درخواست پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی گرفتاری کیلئے ریڈ نوٹس جاری کرنے سے انکار کردیا اور انہیں کلین چٹ دیتے ہوئے ڈیٹا حذف کرنےکی ہدایت کردی۔

مزید خبریں :