17 نومبر ، 2019
جدید دَور کے باکمال شاعر فیض احمد فیض 13فروری 1911ء کو ضلع سیال کوٹ کی ایک تحصیل، نارووال کے قصبے،کا لا قادر (موجودہ فیض نگر)میں خان بہادر چوہدری سلطان محمّد خان کے گھرپیدا ہوئے ۔ان کے والد، سلطان محمد خان پیشے کے اعتبارسے وکیل تھے ، امارت افغانستان (موجودہ اسلامی جمہوریۂ افغانستان)کے امیر عبدالرحمٰن خان کے ہاں چیف سیکرٹری بھی رہے۔
بعد ازاں، انہوں نے افغان امیر کی سوانح حیات شایع کی۔فیض کی والدہ، سلطان فاطمہ انتہائی ذہین، تعلیم یافتہ اور عبادت گزار خاتون تھیں۔ ننّھا فیض جب پانچ برس کا ہوا ،تو اسے قرآن پاک حفظ کرنے بٹھا دیا گیا۔تاہم، آنکھوں کی تکلیف کے باعث حفظ کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔فیض کو زندگی بھر اس بات کا پچھتاوا رہا کہ وہ مکمل قرآن حفظ نہ کر سکے۔
فیض احمد فیض نے اُردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر حاصل کی۔ پھر قرآن و حدیث کی تعلیم مولوی محمّد ابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔فیض کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ انہیں شمس العلماء مولوی میر حسن کی شاگردی نصیب ہوئی، جن سے انہوں نے عربی کی تعلیم حاصل کی۔وہ بچپن ہی سے بہت خاموش مزاج اور حلیم الطّبع تھے۔
اوائل عُمری سے والدِ محترم کے ساتھ صبح کی نماز باجماعت ادا کرنے جاتے، بعد ازاں مولوی ابراہیم میر سے درس بھی لیتے۔گوکہ فیض احمد فیض کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا، لیکن ان کے والد کی خواہش تھی کہ ان کا چشم و چراغ جدید علوم بھی سیکھے اور سر سید احمد خان کے نقشِ قدم پر چلے۔
اسی خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے 1921ء میں فیض کا داخلہ ، ایک برطانوی مقامی خاندان کے زیرِ انتظام ،اسکاچ مشن اسکول میں کروادیا، جہاں سے انہوں نے میٹرک کیا۔ وہاں کے ماحول نے بھی ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا،مگروالد کا قدم قدم پر ساتھ ان کو اوجِ کمال تک پہنچانے میں بڑا سود مند ثابت ہوا۔وہ عموماً رات کو اپنے والد کو اخبار پڑھ کر سناتے تھے۔
انگریزی ،اُردو اخبار بینی کی عادت ان کی معلومات اور علمی استعداد میں اضافے کا سبب بنی۔جب فیض دسویں جماعت میں تھے تو طلبہ کے درمیان ایک شعری مقابلے کا انعقاد کروایا گیااور انہیں ایک مصرعے پر غزل کہنے کی دعوت دی گئی،غزل میں پہلا انعام فیض کے حصّے آیا۔اس مقابلے میں منصف کے فرائض علاّمہ اقبال کے استادِ گرامی، شمس العلماءمولوی سیّد میر حسن ادا کررہے تھے۔انہوں نے اپنی جیب سے ایک روپیا بہ طور انعام فیض کو دیا، جو بہ قول فیض’’میری زندگی کا سرمایہ ہے‘‘اور یوںان کا نام پورے اسکول میں مشہور ہوگیا۔
میٹرک کے بعد ان کا داخلہ مَرے کالج، سیال کوٹ میں ہوگیا۔ کالج کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ایک بار فیض نے کہا کہ ’’ مَرے کالج، سیال کوٹ میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی ایک بہت ہی قابل استاد تھے۔ وہ علاّمہ اقبال کی شاعری کے مفسّر بھی تھے۔جب انہوں نے میری شاعری سُنی، تو بہت داد دی اورکہا کہ ’’تم اپنی شاعری پر ضرور توجّہ دینا، شاید ایک دن تم بڑے شاعر بن جاؤ۔‘‘
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی یہ رائے درست ثابت ہوئی اور فیض احمد فیض کا شمار اردو کے ان خوش نصیب شعراء میں ہوا ،جن کو اپنی رجحان ساز شاعری کے سبب دنیا بھر میں شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایسے شعرا بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں ،جو اچھے نظم گوبھی ہوں اور اعلیٰ غزل نگار بھی۔ فیض کو نظم اور غزل دونوں ہی میں کمال حاصل تھا۔
فیض جب سترہ برس کے ہوئے ،تو ان پر بھی عشق و محبت کا بھوت سوار ہوااورانہوں نے خُوب صُورت رومانی اشعار کہنا شروع کردئیے۔ انہی حالات میں فیض نے مَرے کالج سے ایف اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔1929ءمیں انٹر کے بعد فیض صاحب نے گورنمنٹ کالج ،لاہور کا رُخ کیا، جس میں داخلے کے لیے علّامہ اِقبال نے انہیں کالج کے پرنسپل ،پروفیسر قاضی فضل ِحق کے نام ایک خط لکھ کر دیا۔یوں نو جوان فیض کو گورنمنٹ کالج، لاہور کی ادب خیز زمین میں اپنے ادبی ذوق و شوق کی آب یاری کا موقع مل گیا۔ فیض کی رومانی شاعری کو انگیخت گورنمنٹ کالج لاہور سے ملی۔
اس زمانے میں انہیں کالج کے اساتذہ اور ان کی محفلیں بہت راس آئیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک مشاعرہ پطرس بخاری کی زیرِ صدارت ہوا،جس میں فیض کو بھی اپنا کلام پڑھنے کا موقع ملا، اس مشاعرے میں انہوںنے خوب داد وصولی۔ مشاعرے کے اختتام پر چراغ حسن حسرت، صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم اور عبد المجید سالک جیسے عظیم اہلِ علم اور دانش وَروںنے فیض کے کلام کو خُوب سراہا۔
دوسری گول میز کانفرنس کے بعد جب علامہ اقبال واپس لوٹے ،تو گورنمنٹ کالج ، لاہورکی جانب سے انہیں استقبالیہ دیا گیا۔ صوفی غلام مصطفٰی تبسّم کے کہنے پر فیض نے بھی نظم پڑھی، جسے حضرت علاّمہ اقبال نے بہت پسند فرمایا اور داددی۔ 1932ء میں انہوں نے دو مضامین (انگریزی ادب اور عربی) میں ماسٹرز کیا۔ تعلیمی منازل طے کرنے کے بعد امرتسرچلےگئے اور 1935ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، امرتسر میں انگریزی و برطانوی ادب کے لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرلی۔
فیض احمد فیض نے 1936ء میں سجّاد ظہیر اور صاحب زادہ محمودالظّفر کے ساتھ مل کر ’’انجمنِ ترقی پسند مصنفین تحریک‘‘ کی بنیاد ڈالی۔وہ ترقی پسند تحریک کے بانیان میں شامل تھے، لیکن اِس تحریک کے بقیہ شعرا میں جو شدّت اور ذہنی انتشار پایا جاتا ہے، فیض اِس اِنتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرتے رہے۔1940ء میں فیض لاہور آگئےاور ہیلے کالج آف کامرس میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران انہیںبی بی سی سروس جوائن کرنے کی آفر ہوئی،مگر انہوںنے اپنے ہی مُلک میں رہنے کا فیصلہ کیا اور ہیلے کالج میں انگریزی پڑھانے کو ترجیح دی۔
1942ء میں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی ، لیکن دوسری جنگِ عظیم سے دُور رہنے کے لیے محکمۂ تعلقاتِ عامّہ میں کام کا انتخاب کیا۔وہ فوج میں جنرل اکبر خان کے ماتحت ایک یونٹ میں بھرتی تھے۔1943ء میں میجر اور پھر 1944ء میں لیفٹیننٹ کرنل ہوگئے۔قیامِ پاکستان اور 1947ء میں کشمیر پر ہونے والی پاک، بھارت جنگ کے بعد فوج سے مستعفی ہو کر پاکستان آ گئے۔فیض کو 9 مارچ 1951ء کو راول پنڈی سازش كکیس میں معاونت کے الزام میں حکومتِ وقت نے گرفتار كکر لیا۔
اور پھرچار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی كکی جیلوں میں گزارنےکے بعد 2اپریل 1955ء كکو رہا كکیے گئے۔ ’’زنداں نامہ‘‘ کی بیش تر نظمیں انہوں نےاِسی عرصے میں لکھیں۔ رہا ہونے کے بعد فیض نے جلاوطنی اختیار کر لی اپنے خاندان سمیت لندن میںرہائش پذیر ہوگئے۔ جلا وطنی کے زمانے میں انہوں نے ایک شعر کہا؎’’فیض نہ ہم یوسفؑ نہ کوئی یعقوبؑ ،جو ہم کو یاد کرے…اپنی کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے۔‘‘
فیض صرف شاعر ہی نہیں ، اعلیٰ پائےکے نثر نگار، انگریزی کے کام یاب صحافی اور منجھے ہوئے ڈراما نگار بھی تھے۔ 1938-39 ء وہ اردو کے مشہور ادبی رسالے’’ادبِ لطیف‘‘ کے ایڈیٹر تھے،تو انگریزی روزنامے، پاکستان ٹائمز اور اردو اخبار، اِمروز اور لیل و نہار کے مدیرِ اعلیٰ بھی رہے۔ خود اختیار کردہ مُلک بدری کے دوران طویل عرصے تک ایفروایشین رائٹرز کے میگزین ’’لوٹس‘‘ کے بھی مدیر بھی رہے، ان کی ادارت میں اس میگزین نے بہت ترقّی کی۔ فیض احمد فیض نے ریڈیو کے لیے ڈرامے’’پرائیویٹ سیکریٹری‘‘، ’’ہوتا ہے شب و روز‘‘ ، لکھے، جو 1970ء میں ٹیلی وژن سے بھی پیش کیے گئے۔
فیض کا دل مظلوموں، کمزوروںکے لیے خُوب دھڑکتا تھا، اسی لیے ظلم، جبرو استبداد کے خلاف جدوجہد کرنے والے ہر فرد اور گروہ کو فیض کے اشعار میں اپنے ہی احساسات کی جھلک محسوس ہوتی ہے۔؎بول کہ لب آزاد ہیں تیرے …بول زباں اب تک تیری ہے …تیرا ستواں جسم ہے تیرا…بول کہ جاں اب تک تیری ہے۔ فیض کی تقریباً پندرہ شعری اور نثری تصانیف شایع ہوئیں۔ اُن کا پہلا مجموعۂ کلام ’’نقشِ فریادی‘‘ 1941ء میں شایع ہوا، جب کہ ’’دستِ صبا‘‘ ،’’زنداںنامہ‘‘ ،’’دست تہہ سنگ‘‘ ، ’’وادیٔ سینا‘‘ ،’’شامِ شہرِیاراں‘‘، ’’میرے دل میرے مسافر‘‘ وغیرہ اور’’ کلیات نسخہ ہاے ٔوفا‘‘ نے بھی خُوب پذیرائی حاصل کی جب کہ نثر میں ’’صلیبیں میرے دریچے میں ‘‘، ’’متاعِ لو ح و قلم‘‘اور ’’ماہ و سال آشنائی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
فیض صاحب کی پوری زندگی نشیب و فراز ہی میں گِھری رہی۔ تاہم ، اس دوران ان کی اہلیہ، ایلس نے ایک سچّے ہم سفر کی طرح تمام حالات میںان کا ہاتھ تھامے رکھا، چاہے وہ جِلا وطنی کے دن ہوں یا معاشی طور پر کٹھن حالات۔یہ خوشی کی بات ہے کہ فیض صاحب کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کے ناقدین نے بھی انہیں ایک عظیم شاعر تسلیم کر لیا تھا۔فیض صاحب کو 1962ء میں روس کاسب سے بڑا امن ایوارڈ،’’لینن پرائز‘‘ دیا گیا، جب کہ انتقال سے کچھ روز پہلے اُنہیں اَدبی خدمات کے اعتراف میں’’ نوبیل ایوارڈ‘‘ کے لیے بھی نام زد کیا گیاتھا۔ فیض احمد فیض، 20نومبر 1984ء کو لاہور میں حرکتِ قَلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔
اُن کی رحلت سے اردو ادب میں جو خلاء پیدا ہوا ، اُسے تو پُر نہیں کیا جا سکے گا، پر وہ آج بھی اپنے کلام کی صُورت ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور اُن کی شاعری کی خُوش بُو ہمارے دلوں کو معطّر کر رہی ہے۔ ؎ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن … اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے۔