20 نومبر ، 2019
بیجنگ سے دو شکایتیں تھیں، ایک سردی جعلی ہے اور دوسرے کافی پینے کا سلیقہ نہیں۔ سردی کا گلہ تو بیجنگ نے ایسے دور کیا ہے کہ چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں۔
چنگ شا سے جب جہاز بیجنگ میں لینڈ کیا تو ایسے لڑکھڑایا جیسے فلموں میں ہیرو محبوبہ کی بےوفائی پر شراب پی کر لڑکھڑانے کی ایکٹنگ کرتا ہے، وجہ بیجنگ کی تیز ہوا تھی، بیجنگ میں چاہے سورج نکلا ہو مگر جب ہوا چلتی ہے تو دو منٹ کھڑے رہنا محال ہو جاتا ہے، لگتا ہے جیسے ٹھنڈ ہڈیوں کے اندر گھس رہی ہو۔
رات کو میں فقط کوٹ پینٹ پہن کر ہوٹل سے نکلا، ارادہ تھا کہ کھلی ہوا میں چہل قدمی کروں گا، ابھی چار قدم بھی نہ چل پایا تھا کہ جیک لنڈن کا افسانہ To build a fireیاد آ گیا، الٹے قدموں واپس ہو لیا، کچھ دیر اور باہر رہتا تو چینیوں نے مجھے ’’ممی‘‘ بنا کر ہنوط کر لینا تھا۔
چنگ شا میں ہمارے گائیڈ مسٹر رے نے بتایا تھا کہ کچھ چینی لوگ اِس موسم میں خود کو گرم رکھنے کے لیے کتے کا گوشت نہایت رغبت سے کھاتے ہیں اور وہ یہاں کافی مہنگا ہے۔
کتے ہمارے ملک میں بکثرت پائے جاتے ہیں مگر شاید وہ چین کو ایکسپورٹ کرنے کے قابل نہیں کیونکہ بھونکتے بہت ہیں جبکہ چین میں بھونکنے پر پابندی ہے۔ بیجنگ سے کافی کا گلہ بھی کسی حد تک دور ہو گیا ہے، ایسا نہیں کہ یہاں کافی نہیں ملتی یا مشہور کافی چینز نہیں ہیں، سب ہیں مگر جو قوم جگ میں لسّی کی طرح کافی سرو کرتی ہو اُسے کیا سمجھائیں کہ کافی صرف مشروب نہیں اس کے لیے ایک ماحول بھی ہونا چاہئے، جس طرح یورپ میں سڑک کے کنارے خوبصورت کیفے میں بیٹھ کر آپ کافی انجوائے کر سکتے ہیں وہ ماحول مجھے بیجنگ میں نظر نہیں آیا اور اگر کہیں یہ ہے تو کم از کم فدوی اس سے محروم رہا۔
بہرحال جو بھی ہو اب بیجنگ مجھے اور میں بیجنگ کو کچھ کچھ پسند آ گیا ہوں، اُبلی ہوئی مچھلی اور نوڈلز کھا کھا کر میری شکل چینیوں سے ملنے لگی ہے، بات بات پر نی ہاؤ کہتا ہوں، اور اب تو سوچ رہا ہوں کیوں نہ چین کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو جاؤں۔
یہاں ایک کروڑ لوگ اِس پارٹی کے رکن ہیں، یہ نظریاتی کارکن ہیں اور اِن کے عہدے حکومت کے ہر کارخانے، کمپنی، دفتر، کارپوریشن حتّیٰ کہ فوج میں بھی ہیں۔ سیاسی طور پر کمیونزم کا ماڈل یہاں مغربی جمہوریت کا متبادل ہے جسے لوگوں نے بظاہر قبول کر رکھا ہے مگر مجموعی طور پر چین سرمایہ دارانہ نظام میں رنگ چکا ہے۔
مسلمان اقلیتوں کو یہاں واقعی بہت مشکلات کا سامنا ہے، ایک عام چینی باشندے کو پاسپورٹ لینے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا مگر سنکیانگ کے مسلمان کے لیے پاسپورٹ کا حصول آسان نہیں، اکثر و بیشتر اِن پر مظالم کی خبریں عالمی میڈیا میں آتی رہتی ہیں جن کا چینی اخبارات میں شائع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بیجنگ میں ہوتے ہوئے پرل مارکیٹ جانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دیوارِ چین دیکھنا، آپ بےشک قسم کھا کے جائیں کہ کوئی خریداری نہیں کرنی پھر بھی یہاں کی سیلز گرلز آپ کو دو چار سو کی چیز بیچ ہی دیں گی، یہ سیلز گرلز ہزار یوان سے چیز کی قیمت شروع کرتی ہیں اور پھر کیلکولیٹر آپ کو تھما کے کہتی ہیں ’’یو ٹیل، وٹ از یور پرائس‘‘۔
اس کے بعد بھاؤ تاؤ کرتے کرتے ہزار کی چیز ڈیڑھ سو میں دے دیتی ہیں اور ساتھ ہی بُرا سا منہ بنا کے کہتی ہیں ’’یو آر نو گڈ، آ میک نو پرافٹ‘‘۔ اس سودے بازی کے دوران وہ آپ کو دکان سے باہر قدم نہیں رکھنے دیتیں اور تقریباً دس مرتبہ ایسا مرحلہ آتا ہے جب وہ کہتی ہیں ’’اوکے، فائنل پرائس، ٹو ہنڈرڈ، یس اور نو‘‘! دکان داروں سے سودے بازی، امریکہ اور یورپ میں بھی ہوتی ہے مگر جو کمال کی سیلز مین شپ اِن لڑکیوں کی ہے وہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔
سفر دراصل اپنے اپنے تجربے کا نام ہے، ہمیں کسی ملک میں کوئی باتونی ٹیکسی ڈرائیور مل جائے تو کہتے ہیں اِس ملک کے لوگ بہت باتونی ہیں، کہیں کوئی عورت فلرٹ کرے تو کہیں گے یہاں کی عورتیں عاشق مزاج ہیں اور کہیں کوئی سیلز مین دھوکہ دے تو پورے ملک پر لیبل لگا دیں گے کہ یہاں کے لوگ بےایمان ہے۔
یہ بات یہاں کے یونیورسٹی پروفیسروں سے ملاقات کے دوران یاد آئی، اِن پروفیسروں سے مل کر احساس ہوا کہ وہ کوئی بہت زیادہ جینئس نہیں، انگریزی میں اظہار بھی اِن کے لیے ایک مسئلہ ہے لیکن جس موضوع پر بھی انہوں نے رائے زنی کی تو ایسے کوئی موتی نہیں بکھیرے کہ چُننے کی ضرورت پیش آتی مگر وہی بات کہ اتنے بڑے ملک کے دو چار پروفیسروں سے مل کر یہ تاثر بنانا درست نہیں، آخر چینیوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور اُن کی جامعات کی عالمی درجہ بندی بھی ہم سے بہتر ہے۔
بیجنگ کے کئی رنگ ہیں، اگر آپ زیدان کے علاقے میں نکل جائیں تو یوں لگے گا جیسے امریکہ کے کسی بڑے شہر میں آ گئے ہوں، وہی چکا چوند وہی چہل پہل، ڈاؤن ٹاؤن کی وہی رونق اور اگر تیامن اسکوائر کی طرف چلے جائیں تو بیجنگ کا کروفر اپنے عروج پر نظر آئے گا، پانچ ہزار سال کی تاریخ سمٹ کر قدموں میں آ جائے گی۔
تیسرا رنگ بیجنگ کا موسم ہے، پت جھڑ کے بعد اب جاڑا ہے، درختوں کی شاخیں ٹنڈ منڈ ہو چکی ہیں، بہار میں یہاں پھر رنگ بھر جائیں گے، ایک ہم ہیں، برسوں سے ایک ہی موسم میں جی رہے ہیں!
دراصل انسانوں کی زندگی میں تبدیلی کا ایک لمحہ آتا ہے جسے ہم tipping pointکہتے ہیں، یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب مسلسل جدو جہد کے بعد کوئی شخص کامیابی کی لکیر پار کر لیتا ہے، قوموں کی زندگی میں بھی ایسا ہی تبدیلی کا لمحہ آتا ہے جب انہیں ترقی کا گئیر لگتا ہے، چین کو یہ گئیر 1978میں لگا، ہم ابھی تک گاڑی بھی اسٹارٹ نہیں کر پائے ہیں۔