پاکستان
Time 20 نومبر ، 2019

وزیراعظم طاقتوروں کا طعنہ نہ دیں، کسی کو باہر جانے کی اجازت انہوں نے خود دی: چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ  وزیراعظم طاقتوروں کا طعنہ ہمیں نہ دیں، جس کیس کا طعنہ وزیراعظم نے ہمیں دیا اس کیس میں باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی۔

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ یہ تاثر جارہا ہے کہ ملک میں طاقتور اور کمزور لوگوں کے لیے الگ الگ قانون ہے، چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ انصاف دے کر اس ملک کو آزاد کرائیں۔

وزیراعظم طاقت ور کا طعنہ ہمیں نہ دیں: چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم طاقت ور کا طعنہ ہمیں نہ دیں،جس کیس کا طعنہ وزیراعظم نے ہمیں دیا اس کیس میں باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی،  اس معاملے کا اصول محترم وزیراعظم نے خود طے کیا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے سامنے صرف قانون طاقتور ہے کوئی انسان نہیں، اب عدلیہ آزاد ہے، ہم نے دو وزرائے اعظم کو سزا دی اور ایک کو نااہل کیا، ایک سابق آرمی چیف کا جلد فیصلہ آنے والا ہے۔

انہوں نے کہاکہ وزیراعظم صاحب کا اعلان خوش آئند ہے مگر ہم نے امیر غریب سب کو انصاف فراہم کرنا ہے، ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے، ججوں پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں۔

 وزیراعظم کو اس طرح کے بیانات دینے سے خیال کرنا چاہیے: جسٹس کھوسہ

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں اور  ہمارے منتخب نمائندے ہیں، وزیراعظم کو اس طرح کے بیانات دینے سے خیال کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدلیہ اپنا کام پوری دیانت داری اور فرض شناسی سے کر رہی ہے، ججز اور عدلیہ کی حوصلہ افزائی کریں، ہم بغیر وسائل کے کام کر رہے ہیں، جب وسائل فراہم کیے گئے تو مزید بہتر کام ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ وسائل کے بغیر جو ہم نےکیا ہے، معاشرے کواس کا پتہ نہیں ہے، ہماری جوڈیشری میں 3100 ججز اور مجسٹریٹس ہیں، پچھلےسال ان مجسٹریٹس اور ججوں نے36 لاکھ کیسز کا فیصلہ کیا، ان 36لاکھ میں سے شاید ایک یا دو طاقتور اوربقیہ سب ناتواں اور کمزورلوگ تھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میڈیا کی مہربانی سے اگر کوئی شخص طاقتور کہلاتا ہے تو اس کا ہرگزیہ تاثر نہیں کہ آپ ان 36 لاکھ لوگوں کو بھول جائیں۔ 3100 ججوں نے جن کیسز کے فیصلے کیے وہ اتنے ناتواں لوگ ہیں کہ آپ کو ان کا پتہ بھی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کہنا کہ کوئی عدم توازن ہے، اس پر ذرا دوبارہ غورکرنا چاہیے۔ ان ہی وسائل پر ہم نےسپریم کورٹ کا 25 سال کا کریمنلز اپیلز کا بیک لاگ ختم کیا، کراچی،لاہور،پشاور، کوئٹہ میں اس وقت کوئی کریمنل اپیل زیر التوا نہیں، وزیراعظم نے وسائل کی فراہمی کا بروقت اعلان کیا ہے،اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

2009 سےپہلے کی عدلیہ سے ہمارا موازنہ نہ کریں، چیف جسٹس

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ ’کوئی ادارہ پرفیکٹ نہیں اور نہ کوئی انسان پرفیکٹ ہے، اتنے جذبے کے ساتھ کوئی کام کررہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں، نتائج اچھے ہوں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہماری عدلیہ میں ایک خاموش انقلاب آگیا ہے۔ آج سےکچھ سال پہلے ججوں نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی التوا نہیں ہوگا،  تین بینچ ایسے ہیں جہاں التوا کی درخواستیں نہیں لی جاتیں، 2009 سے پہلے کی عدلیہ سے ہمارا موازنہ نہ کریں، 2009 ایسا سال تھا جس کے بعد عدلیہ مختلف ہے‘۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب عدلیہ آزاد ہے، ہم صرف اور صرف قانون کے تحت فیصلہ کررہے ہیں، ہمارے لیے نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا ہے، نہ کوئی طاقتور ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنی تقریر میں کیا کہا تھا


مزید خبریں :