Time 26 نومبر ، 2019
پاکستان

نیا تماشا؟

فائل فوٹو

’’ہم چاہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف دائر مقدمے کی سماعت 11مارچ کو موخر ہو اور سماعت میں 18 مارچ سے آگے کی توسیع ملے‘‘۔ ایک اہم افسر نے اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے درخواست کی۔ یہ جمعہ 7 مارچ 2012 کی سہ پہر کم و بیش دو بجے کا وقت تھا۔ گورنر ہاؤس سندھ میں ڈاکٹر عشرت العباد کے سامنے وہ افسر براجمان تھا۔

ان دنوں نوازشریف حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کر رکھا تھا جس کی سماعت زور و شور سے جاری تھی۔ پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کرنے کی گزشتہ سماعتیں کسی کارروائی کے بغیر گزری تھِیں کیونکہ دوبار تو سابق صدر سیکورٹی کی آڑ میں عدالت نہ آئے اور تیسری بار دو جنوری 2014 کو اچانک عدالتی راستے سے راولپنڈی کے ایک سرکاری اسپتال منتقل ہو گئے اور آئین، قانون، عدالتیں، جج، وکیل سب منہ تکتے رہ گئے۔

کیس کی سماعت کے لیے اگلی تاریخ 11مارچ مقرر تھی۔ مذکورہ افسر ڈاکٹر عشرت العباد سے اس لیے مدد لینے آئے تھے کیونکہ خصوصی عدالت کے جج وہ صاحب تھے جو کسی حوالے سے گورنر سندھ کے جاننے والے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنا تعلق استعمال کیا تو معاملہ 11کے بجائے 24مارچ 2014 تک موخر ہوگیا۔

یہ وہ دور تھا کہ جب پرویز مشرف خود بیرونِ ملک جانے کے لیے تیار نہ تھے لیکن ان کو بیرونِ ملک جانے کے لیے قائل کیا جارہا تھا۔ غداری کیس جب ذرا آگے بڑھا تو خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے وکیلوں کی ٹیم پر بھی عدم اطمینان سامنے آیا۔ 

معاملہ ایک بار پھر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی میز پر پہنچ گیا اس پر انہوں نے پرویز مشرف کے لیے ڈاکٹر فروغ نسیم کا نام بطور وکیل پیش کیا۔ یوں فروغ نسیم (موجودہ وزیر قانون) نے 30مارچ 2014کو مشرف غداری کیس میں اپنے کاغذات عدالت میں جمع کرا دیے۔

فروغ نسیم کے موکل پرویز مشرف کو اندرونِ خانہ پوری سرکاری مشینری کی مکمل حمایت اور مدد دستیاب تھی، ساتھ ہی حکومت کے خلاف ملک میں ایک تماشا شروع ہوگیا۔ اگست 2014 میں عمران خان اور طاہرالقادری کے اسلام آباد میں دھرنے بھی اسی تماشے کا حصے تھے۔ 18مارچ 2016 کو بالآخر مشرف دبئی روانہ ہو گئے مگر ملک میں تماشا جاری رہا۔

رواں ماہ 8 نومبر کو میاں نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کے بارے میں شہباز شریف کی طرف سے حکومت کو دی گئی درخواست اور اس پر عملدرآمد کو دیکھتے ہوئے مجھے ملک سے پرویز مشرف کی روانگی کا اوپر بیان کیا گیا قصہ رہ رہ کر یاد آیا۔ تاریخ کا ستم دیکھیے کہ جو کردار پرویز مشرف کو بیرونِ ملک بھیجنے کیلئے 2014 سے 2016 تک کام کرتے رہے ٹھیک تین سال بعد وہی تمام کردار سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو بیرون ِملک بھیجنے کیلئے متحرک نظر آرہے تھے۔

محض اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ مشرف غداری کیس کی سماعت کے دوران اپوزیشن کی طرف سے اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تھا جبکہ نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کی کوششوں کے آغاز کے دوران بھی اپوزیشن کی طرف سے اسلام آباد میں ایک دھرنا دیا گیا۔ اس وقت طاہر القادری عمران خان کے ہمراہ دھرنا دے رہے تھے تو اس بار مولانا فضل الرحمٰن دیگر جماعتوں کے ہمراہ اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔

اس وقت ابتدا میں مشرف بیرونِ ملک نہیں جانا چاہتے تھے تو اس بار نواز شریف بیرونِ ملک جانے سے گریزاں تھے۔ مشرف کو بیرونِ ملک جانے پر راضی کیا گیا تو نواز شریف کو ان کے اردگرد لوگوں نے بیرونِ ملک جانے پر قائل کیا۔

فرق یہ تھا کہ اس وقت پرویز مشرف کے خلاف غداری کا کیس زیرِ سماعت تھا مگر کارروائی آگے نہیں بڑھی تھی جبکہ اس بار تین بار منتخب کیا گیا وزیراعظم ایک متنازع کیس میں جیل میں سزا بھگت رہا تھا اور اسے عدالت نے ضمانت دے رکھی تھی۔ حکومت کو ڈر تھا کہ تین بار وزیراعظم بننے والے نوازشریف کو جیل میں یا پاکستان میں کچھ ہوا تو اس کے نتیجے میں ان کے خلاف نفرت کی فضا کو کوئی قابو میں نہیں لا سکے گا۔

اس وقت پرویز مشرف کے بیرونِ ملک جانے کے صرف ایک ڈیڑھ سال بعد بلوچستان کی حکومت گرا کر وہاں من پسند حکومت قائم ہوئی۔ اس بار یہ عمل پنجاب میں دہرائے جانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں جہاں اگلے چند ماہ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے بعد پرویز الٰہی ممکنہ طور پر نئے وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔

ادھر وزیراعظم عمران خان اس بات پر شاداں ہیں کہ انہیں سب کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ رواں ماہ 15نومبر کو وزیراعظم نے تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں فخر سے حکومت کو دی جانے والی اس مثالی حمایت کا ذکر کیا سارے تماشوں سے آشنا، تجربہ کار وزیر داخلہ بول اٹھے کہ جناب حمایت کسی کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ وہ کارکردگی کے ساتھ ہوتی ہے۔

زیرک وزیر داخلہ کی اس بات کے بعد کمیٹی اجلاس میں بڑی کھسر پھسر ہوئی جو اب بھی جاری ہے۔ نشانیاں بتارہی ہیں کہ ایک نیا تماشا ایک بارپھر جاری ہے۔

المیہ تماشا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہر وزیراعظم ناکام و نامراد ہو کر اپنی مدت پوری کیے بغیر واپس چلا جاتا ہے۔ کوئی بھی سنجیدگی سے اس تماشے کو بند کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا اور اگر وہ کرے بھی تو وزیراعظم کے اردگرد موجود کٹھ پتلیاں خود اسے تماشا بنا دیتی ہیں۔

مزید خبریں :