پاکستان
Time 27 نومبر ، 2019

چیف جسٹس کا آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم سے دلچسپ مکالمہ

فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ اور آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم کےدرمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مدت ختم ہونے پر آرمی چیف ریٹائر ہوجاتا ہے ،پھر اسے دوبارہ آرمی چیف کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، آئین میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کی مدت نہیں۔

اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ آپ کےکہنےکامطلب ہے 10 سال پہلےکےکسی جنرل کوبھی بلاکرآرمی چیف لگاسکتےہیں،کیونکہ جنرل تو ریٹائر ہی نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس پاکستان نے آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم سے دلچسپ مکالمہ کیا اور کہا کہ فروغ نسیم آپ کہہ رہے ہیں آرمی چیف کل ریٹائر ہوجائیں لیکن اٹارنی جنرل کہتے ہیں جنرل ریٹائر ہی نہیں ہوتا، آپ کے مطابق کسی سابق فوجی افسر کو بھی آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟ 

چیف جسٹس نے کہا کہ ’فروغ نسیم صاحب آپ اپنا مسئلہ حل کر کے آئیں، یہ نہ ہو کہ آپ کے مختار نامے پر سارا دن گزر جائے، ہم سائیڈ ایشو پر دن نہیں گزار سکتے، ایسا نہ ہو کہ آپ کے وکالت نامے کے چکر میں نقصان فوج کا ہو۔

فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ میرا لائسنس بحال ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسے ہی نوٹی فکیشن ہوتے رہے تو ہمارے پاس مقدمات کی بھرمار لگ جائے گی، فوج باعزت ادارے کے حوالے سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے، فوج کا کام نہیں کہ آکر ڈرافٹ تیار کرے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزارت قانون کیا ایسے قانون بناتی ہے، اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے، آپ نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا ہے۔

مزید خبریں :