27 نومبر ، 2019
اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کو کل تک کوئی حل نکالنے کی مہلت دے دی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جب کہ اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان نے دلائل دیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم نے نئی تقرری کی سفارش کی اور صدر نے توسیع دی،کیا لکھا ہےاور کیا بھیج رہے ہیں یہ بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی، سمری، ایڈوائس، نوٹی فکیشن جس طرح بنائے لگتا ہے وزارت قانون نے بہت محنت سے یہ معاملہ خراب کیا۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے، آپ نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا ہے، ہم آپ کو کل تک کا وقت دے رہے ہیں حل نکال لیں، بصورت دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے، آئینی ذمہ داری پوری کریں گے۔
سماعت کے آغاز سے پہلے بیرسٹر فروغ نسیم نے کمرہ عدالت میں وکالت نامہ جمع کروایا جب کہ سماعت کے دوران عدالت نے دو مرتبہ وقفہ بھی لیا۔
سپریم کورٹ نے طویل سماعت کے بعد اسے کل صبح تک ملتوی کردیا۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کل ہم نے جو نکات اٹھائے آپ نے انہیں تسلیم کیا، اسی لیے آپ نے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میڈیا کو سمجھ نہیں آئی، اس معاملے پر ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا، ہم کیس ریاض راہی کی درخواست پر ہی سن رہے ہیں۔
کل ہم نے جو نکات اٹھائے آپ نے انہیں تسلیم کیا، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کابینہ نے کل کیا منظوری دی ہے ہمیں دکھائیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل بھی میں نے بتایا کہ توسیع کے نوٹی فکیشن پر متعدد وزراء کے جواب کا انتظار تھا، چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ اگر جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں قواعد کے مطابق ایسا ہی ہے۔
اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ایسا صرف اس صورت میں سمجھا جاتا ہے جب مقررہ مدت میں جواب دینا ہو، آپ نے مدت مقرر نہیں کی تھی لہٰذا آپ کے سوال کا جواب آج بھی ہاں تصورنہیں کیاجاسکتا۔
کابینہ نے ہماری غلطیوں کی نشاندہی کو مان لیا: چیف جسٹس پاکستان
اٹارنی جنرل نے کابینہ کے گزشتہ روز کے فیصلوں کے بارے میں دستاویز عدالت میں جمع کرائیں۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کل رولز میں تبدیلی کے وقت کابینہ کو رولز پربحث کےلیے وقت دیا گیا، اس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ کابینہ ارکان کو وقت دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر اوپن مینڈیٹ تھا تو چھوڑ دیتے ہیں، کابینہ نے ہماری غلطیوں کی نشاندہی کو مان لیا اور یہ بات طے ہے کہ کل جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی ان کو تسلیم کیا گیا، خامیاں تسلیم کرنے کے بعد ان کی تصیح کی گئی۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ خامیاں تسلیم نہیں کی گئیں اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر خامیاں تسلیم نہیں کی گئیں تو تصحیح کیوں کی گئی؟
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں ،توسیع سےمتعلق قانون نہ ہونےکا تاثر غلط ہے، یہ تاثر بھی غلط ہے کہ صرف 11 ارکان نے ہاں میں جواب دیا تھا۔
معزز چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کے مؤقف پر ریمارکس دیے کہ اگرباقیوں نے ہاں میں جواب دیا تھا تو کتنے وقت میں دیا تھا یہ بتا دیں، کل جو آپ نے دستاویز دی تھی اس میں 11 ارکان نے یس لکھا ہوا تھا، نئی دستاویز آپ کے پاس آئی ہے تو دکھائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جاچکی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ کابینہ سے متعلق نکتہ اہم ہے اس لیے اس پر بات کروں گا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مکالمہ کیا کہ اگر کابینہ سرکولیشن میں وقت مقرر نہیں تھا تو اس نکتے کو چھوڑ دیں، جو عدالت نے کل غلطیاں نکالی تھیں انہیں تسلیم کرکے ٹھیک کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر مؤقف اپنایا کہ حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے، اگر حالات پہلے جیسے ہیں تو قانون کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کردی۔
سمری پیش کرنے کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ازسرنو اور توسیع سے متعلق قانون دکھائیں جن پرعمل کیا، تسلی سے سب کو سنیں گے، کوئی جلدی نہیں، پہلے یہ سوال اٹھایا نہیں گیا، اب اٹھا ہے تو اس کے تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے، ماضی میں پانچ 6 جرنیل خود کو دس دس سال ایکسٹینشن دیتے رہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف ملٹری کو کمانڈ کرتا ہے، تعیناتی صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کرتا ہے۔
کیا مدت ملازمت 3 سال کیلیے ہے، اس کے بعد کیا ہوگا؟ عدالت کا سوال
اٹارنی جنرل کے مؤقف پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیےکہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کی مدت کی بات کی گئی ہے، آرمی چیف کتنے عرصے کے لیے تعینات ہوتے ہیں؟ کیا آرمی چیف حاضر سروس افسر بن سکتا ہے یا ریٹائرڈ جنرل بھی، قواعد کو دیکھنا ضروری ہے، 243 تو مراعات اور دیگر معاملات سے متعلق ہے۔
عدالت کے سوالات پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ میرے پاس ترمیمی مسودہ ابھی آیا ہے، اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیال نے کہا کہ ہمارے پاس وہ بھی نہیں آیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین و قانون کی کس شق کے تحت قواعد تبدیل کیے گئے، آرٹیکل 255 ان لوگوں کے لیے ہے جو سروس سے نکالے جاچکے یا ریٹائر ہوگئے، اس آرٹیکل کے تحت ان کو واپس بلایا جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا مدت ملازمت 3 سال کے لیے ہے، 3 سال کے بعد کیا ہوگا، اس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ 3 سال تو نوٹی فکیشن میں لکھا جاتا ہے۔
اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ کل کے نوٹی فکیشن میں 3 سال کی مدت کیسے لکھی گئی۔
جنرل چار 5 مرتبہ خود کو توسیع دیتے رہتے ہیں، یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے:
چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اس میں سب کی بات سنیں گے، یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا، اگر سوال اٹھ گیا ہے تو اسے دیکھیں گے، جنرل چار 5 مرتبہ خود کو توسیع دیتے رہتے ہیں، یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل 4 سال بعد ریٹائر ہوتا ہے اور آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر ہی نہیں ہے، اس پراٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ جی بالکل رول میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر نہیں۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا آرمی چیف کی تقرری کا نوٹی فکیشن ریکارڈ پر موجود ہے،؟ جو نوٹی فکیشن آرمی چیف کا جاری ہوا تھا وہ بتائیں کیا کہتا ہے، اگرریٹائرمنٹ سے 2 دن قبل آرمی چیف کی توسیع ہو توکیا وہ جاری رکھے گا، 3 سال کی مدت ہوتی ہے تو وہ کہاں ہے؟ عدالت کے سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرم کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کا تعین کہیں نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سب کو خاموشی سے سنیں گے، بہت سارے قواعد خاموش ہیں، کچھ روایتیں بن گئی ہیں، ماضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کرلیتے ہیں۔
معزز چیف نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ نارمل ریٹائرمنٹ سے متعلق آرمی کے قواعد پڑھیں، آرمی ایکٹ کے رول 262 سی کو پڑھیں، جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال دی گئی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قمرجاوید باجوہ کی تعیناتی کا پہلا نوٹی فکیشن کیا کہتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے اچھا نکتہ اٹھایا ہے، یہ معاملہ دوبارہ تعیناتی کا ہے، 1948 سے لے کر ابھی تک تقرریاں ایسے ہی ہوئیں ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کہہ دیا اور کہاکہ جسٹس کیانی کی تقرری بھی ایسے ہی ہوئی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کی تصحیح کی اور کہا کہ جسٹس کیانی نہیں جنرل کیانی کی تقرری۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ رولز میں ریٹائرمنٹ اور ڈسچارج کا ذکر ہے، جب مدت مکمل ہوجائے تو پھر نارمل ریٹائرمنٹ ہوتی ہے، 253 کے ایک چیپٹر میں واضح ہےکہ گھرکیسے جائیں گے یا فارغ کیس کریں گے۔
چیف جسٹس کے ریمارکس کے دوران اٹارنی جنرل درمیان میں بول پڑے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ جلدی میں تو نہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ نہیں میں رات تک یہاں ہوں۔
اگر جنگ ہورہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی ہے: چیف جسٹس پاکستان
دورانِ سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ایک بندہ ریٹائرمنٹ کی عمرکو پہنچ چکا تو اس کی ریٹائرمنٹ کومعطل کیا جاسکتا ہے، اگر جنگ ہورہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی ہے۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ریٹائرمنٹ کی حد کا کوئی تعین نہیں، اس پر جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوسکتی؟ مدت پوری ہونے پر محض غیر متعلقہ قاعدے پر توسیع ہوسکتی ہے، یہ تو بہت عجیب بات ہے۔
معزز چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انگریز نے جو بنایا تھا وہ ایک اسکیم تھی، جو ترمیم کرکے آپ آگئے ہیں وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ وفاقی حکومتی افسران سے متعلق رولز بنائے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ابھی تک ہمیں یہ اسکیم ہی سمجھ نہیں آئی کہ کن رولز کے تحت توسیع ہوئی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ دیکھتے ہیں بحث کب تک چلتی ہے، ابھی تک تو ہم کیس سمجھ ہی رہے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک بجے تک ملتوی کردی جو ایک بجے کے بعد پھر شروع ہوئی۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم آرمی ایکٹ اور رولزکا شق وار جائزہ لیتے ہیں تاکہ آرمی چیف کی تقرری اور توسیع کے قانون کی روح سمجھ سکیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ بہتر ہے کہ عدالت کیس سے متعلق سوال پوچھے، میں جواب دونگا اور آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی سے متعلق عدالت کو مطمئن کروں گا۔
آرٹیکل 243 کے تحت ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جاسکتا ہے؟ عدالت کا سوال
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 243 کے تحت ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جاسکتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت 1975 کے کنونشن کے تحت ہے۔
معزز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیےکہ یہ ایک قانون کی عدالت ہے، ہمارے سامنے قانون ہے شخصیات نہیں، اگر قانون کے مطابق کوئی چیزغلط ہوتو اس کو ٹھیک نہیں کہہ سکتے، اگر قانون کے مطابق درست نہیں تو پھر ہم فیصلہ دیں گے۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ جنرل قوم کا افسر ہوتا ہے، عدالت کو میں تعیناتی کی دیگر مثالیں بھی پیش کروں گا،اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیےکہ ہمارے سامنے سوال چیف کا ہے جنرل کا نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ پہلے قانون سے دلائل کا آغاز کریں، ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں جو بولنا چاہتے ہیں بولیں، پھر ہم قانونی نکات پر بات کریں گے، ہم آپ کی دلائل کی تعریف کرتے ہیں، ہم ان رولز اور ریگولیشن کو پڑھتے ہیں، جو کہنا ہے کہیں ایک ایک لفظ نوٹ کر رہے ہیں۔
یہ بتائیں ریٹائرڈ آرمی چیف کو دوبارہ لگایاجاسکتا ہے یانہیں، اس سوال کا واضح جواب آئے تو مسئلہ حل ہوگا، عدالت کا اٹارنی جنرل سے استفسار
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف آرمی کے کمانڈنگ افسر ہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف میں اسٹاف کا مطلب کیا ہے، خالی چیف آف آرمی بھی تو ہوسکتا تھا، اٹارنی جنرل نےجواب دیا کہ اس بارے میں مجھے علم نہیں، پڑھ کر بتا سکتا ہوں، کمانڈنگ افسر وہ ہوتا ہے جو آرمی کے کسی الگ یونٹ کا سربراہ ہو۔
جسٹس منصور نے مزید کہا کہ آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا اختیارہے یہ بات واضح ہے، ابہام نہیں کہ وزیراعظم کسی کوبھی آرمی چیف مقررکرسکتےہیں، آپ یہ بتائیں ریٹائرڈ آرمی چیف کو دوبارہ لگایاجاسکتا ہے یانہیں، اس سوال کا واضح جواب آئے تو مسئلہ حل ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں کمیشنڈ افسر کی تعریف نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تعریف ہے، اعلیٰ افسر کمیشنڈ افسر کہلاتے ہیں، جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کہیں گڑبڑ ہے، ہم سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
کہیں گڑبڑ ہے، ہم سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں: چیف جسٹس پاکستان
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ پہلے یہ بتائیں آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہےاچھے افسرکو توسیع دے دیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رولز 176 میں یہ چیزیں بتائی گئی ہیں، اس پر معزز جج نے کہا کہ 176 میں تو صرف رولز ہیں، اچھا کام کرنے والے افسران کی مدت میں توسیع کا ذکر نہیں۔
چیف جسٹس نے انورمنصور سے سوال کیا کہ بتائیں اچھی کارکردگی والے افسر کو کس قانون کے تحت عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 176 میں قواعد بنانے کے اختیارات موجود ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیےکہ آرمی آفیسر کے حلف میں ہے کہ اگر جان دینی پڑی تو دے گا، یہ بہت بڑی بات ہے، "میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا" یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے، بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نا لیا جائے۔
بتائیں اچھی کارکردگی والے افسر کو کس قانون کے تحت عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے؟ عدالت کا سوال
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرمی ایکٹ میں کسی بھی افسر کی مدت سروس کا ذکر ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مدت ملازمت کا ذکر رولز میں ہے ایکٹ میں نہیں۔
اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں مدت اور دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی ذکر ایکٹ میں نہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ فیلڈ مارشل سمیت کسی بھی آرمی افسر کو حکومت ریٹائرڈ کر سکتی ہے، حکومت رضاکارانہ طور پر یا پھر جبری طور پر ریٹائر کرسکتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں کسی مدت کا ذکر نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف فوجی معاملات پرحکومت کا مشیر بھی ہوتا ہے، فوج کے نظم ونسق کی ذمہ داری بھی آرمی چیف پر عائد ہوتی ہے، ہم فوج کے سارے ریگولیشنزدیکھ رہے ہیں تاکہ آپ کے دلائل کو سراہ سکیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم آرمی رولز ریگولیشنز بنائے والےکی اسکیم سمجھنا چاہتے کہ اسکے ذہن میں کیا تھا، رولز کے مطابق جنگی حالات میں ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ تعینات کیا جاسکتا ہے، کچھ عرصہ قبل 3 ریٹائرڈ آرمی افسران کو سزا دی گئی، ریٹائرڈ افسران کےخلاف سروس میں بحال کرکے کارروائی کی گئی، متعلقہ حکام بتائیں کس قانون کے تحت ریٹائرڈ افسران کو بحال کرکے سزا دی گئی؟ معلوم ہونا چاہیے آرٹیکل 255 کو پاک آرمی کس تناظر میں دیکھتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ سیشن 255 کو احتیاط سے پڑھیں، آپ کے کیس کا سارا دارومدار اس پر ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ نارمل ریٹائرمنٹ کب ہوتی ہے، مدتِ ملازمت پوری ہوجائے تو کیا ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ریٹائرمنٹ ہوتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم سروس ٹرمینیشن سے متعلق پوری اسکیم دیکھ رہے ہیں، اس میں نوکری سے برخاستگی، ریٹائرمنٹ اور ریٹائرمنٹ کی معطلی آتی ہے، جنگ کے دوران عارضی طور پر ریٹائرمنٹ معطل کی جاسکتی ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آرمی چیف کا اپائمنٹ لیٹر کہاں ہے؟ عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی تعیناتی کا لیٹر پیش کیا۔
مدت ختم ہونے پر آرمی چیف ریٹائر ہوجاتا ہے ،پھر اسے دوبارہ آرمی چیف کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ عدالت کا استفسار
جسٹس منصور نے مزید استفسار کیا کہ مدت ختم ہونے پر آرمی چیف ریٹائر ہوجاتا ہے ،پھر اسے دوبارہ آرمی چیف کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، آئین میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کی مدت نہیں۔
اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ آپ کےکہنےکامطلب ہے 10 سال پہلےکےکسی جنرل کوبھی بلاکرآرمی چیف لگاسکتےہیں،کیونکہ جنرل تو ریٹائر ہی نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے رولز بنائے گئے، ان آرمی افسران جن کو سزا ہوئی تھی ان کا رکارڈ منگوا لیں تاکہ تمام پہلوؤں کا تعین ہوسکے، 255 کی ذیلی شق اے میں مقررہ مدت پر ریٹائرمنٹ کا لفظ ہے جو آپ کے حق میں نہیں، آرٹیکل 255 بی بھی آپ کے حق میں نہیں جا رہا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو کیا وفاقی حکومت مقرر کرسکتی ہے؟ صدر، وزیراعظم کی سفارش پر آرمی چیف کو آ ئینی عہدے کیلئے تعینات کرتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ عدالت کو آرمی چیف کے جنرل کے عہدے پر غور کرنا ہوگا، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف اور جنرل کو الگ نہیں کیا جاسکتا، ہمارے سامنے صرف آرمی چیف کا معاملہ ہے کسی جنرل کا نہیں، شق 255 آرمی چیف کو ڈیل نہیں کرتی۔
جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کیا ہوگی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی چیف عہدہ ہے لیکن وہ بھی جنرل ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ مدت تو 65 سال تک لکھی ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ تو پرانی اور غیرمتعلقہ ہے، 255 اے، بی اور سی ریٹائرمنٹ سے متعلق ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو وفاقی حکومت نہیں بلکہ صدر تعینات کرتا ہے، میرے پاس معاملہ چیف آف دی آرمی اسٹاف سے متعلق ہے، آرمی چیف کو صدر وزیراعظم کی سفارش پر تعینات کرتا ہے، مجھے ان کے جنرل ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں، چاہے وہ ساری زندگی ہی جنرل رہیں، معاملہ یہ ہے کہ کیا انہیں بطور آرمی چیف توسیع مل سکتی ہے۔
اگر آرمی چیف کی تعیناتی حکومت نہیں کرتی تو پھرتوسیع کیسے دے سکتی ہے؟ عدالت کا سوال
عدالت کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے کہا کہ آرمی چیف کو وفاقی حکومت تعینات نہیں کرسکتی، آرمی چیف کو صدر ہی تعینات کرتا ہے۔
اٹارنی جنرل کے مؤقف پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر آرمی چیف کی تعیناتی حکومت نہیں کرتی تو پھرتوسیع کیسے دے سکتی ہے؟
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم سے دلچسپ مکالمہ کیا اور کہا کہ فروغ نسیم آپ کہہ رہے ہیں آرمی چیف کل ریٹائر ہوجائیں لیکن اٹارنی جنرل کہتے ہیں جنرل ریٹائر ہی نہیں ہوتا، آپ کے مطابق کسی سابق فوجی افسر کو بھی آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ’فروغ نسیم صاحب آپ اپنا مسئلہ حل کر کے آئیں، یہ نہ ہو کہ آپ کے مختار نامے پر سارا دن گزر جائے، ہم سائیڈ ایشو پر دن نہیں گزار سکتے، ایسا نہ ہو کہ آپ کے وکالت نامے کے چکر میں نقصان فوج کا ہو۔
فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ میرا لائسنس بحال ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسے ہی نوٹی فکیشن ہوتے رہے تو ہمارے پاس مقدمات کی بھرمار لگ جائے گی، فوج باعزت ادارے کے حوالے سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے، فوج کا کام نہیں کہ آکر ڈرافٹ تیار کرے۔
آرمی چیف کی مدت 28 اور 29 نومبر کی درمیانی شب ختم ہورہی ہے: چیف جسٹس
بعد ازاں عدالت نے ساڑھے تین بجے کے قریب سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔
وقفے کےبعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف کی مدت 28 نومبر کو ختم ہو رہی ہے ، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 28 نومبر کو ختم نہیں ہو رہی، وہ 29 نومبر کو تعینات ہوئے، مطلب آرمی چیف کی مدت 28 اور 29 کی درمیانی شب ختم ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی ہے لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے، کسی نے پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی، وزیراعظم نے سمری اور ایڈوائز تعیناتی کی بھیجی اور نوٹیفکیشن توسیع کا ہو گیا۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ وزارتی معاملات ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ جائیں دو دن ہیں کچھ کریں، ساری رات اکٹھے ہوئے اور کابینہ کے دو سیشن ہوئے، ہم نے سوچا تھا کہ اتنے دماغ بیٹھے ہیں، اتنے غور کے بعد یہ چیز لے کر آئے ہیں ،ہمارے لیے تکلیف کی بات ہے۔
کل تک کا وقت دے رہے ہیں حل نکال لیں، بصورت دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے اور ہم آئینی ڈیوٹی پوری کریں گے: جسٹس کھوسہ
جسٹس منصور علی نے کہا کہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے جب وہ اسٹاف کا حصہ ہی نہیں ہوں گے، اسٹاف کا لفظ اسی لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اسٹاف کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کوئی ریٹائرڈ افسر دوبارہ تعینات ہو سکتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جب تک کمانڈ دوسرے جنرل کے سپرد نہیں ہو جاتی تب تک ریٹائرڈ تسلیم نہیں کیا جاتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزارت قانون کیا ایسے قانون بناتی ہے، اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے، آپ نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ اگر آرمی چیف کی توسیع نہ ہوئی تو ادارہ سربراہ سے محروم ہو جائے گا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم آپ کو کل تک کا وقت دے رہے ہیں حل نکال لیں، بصورت دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے اور ہم آئینی ڈیوٹی پوری کریں گے۔
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دیےکہ صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس اور نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کروائیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل ازیں گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں مزید تین سال کی توسیع یا دوبارہ تقرری کا نوٹی فکیشن معطل کردیا تھا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے دوٹوک الفاظ میں بتایا کہ پاکستان آرمی سے متعلق کسی قانون میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کی شق موجود نہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کابینہ سے نام نہاد منظوری لی گئی، کابینہ کے پچیس ارکان میں سے صرف 11 نے منظوری دی، اکثریت نے تو منظوری دی ہی نہیں۔ آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم کیسے فکس کر سکتے ہیں؟ یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ تین سال تک ہنگامی حالات رہیں گے؟
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع و تقرری کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزارت دفاع اور وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کیے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کیے جانے کے بعد وفاقی کابینہ کے معمول کے اجلاس کے بعد ہنگامی اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع و تقرری کی نئی سمری متفقہ طور پر منظور کی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ میں ڈیفنس ایکٹ میں ترمیم منظور کی گئی، اس ترمیم کے تحت ڈیفنس ایکٹ میں لفظ ایکسٹینشن کااضافہ کیا گیا اور پھر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی نئی سمری تیار کی گئی جسے کابینہ ارکان کے سامنے پیش کیا گیا۔
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد نئی سمری صدر مملکت کو بھجوادی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا پہلا نوٹیفکیشن واپس لے لیا، نوٹیفکیشن 19 اگست کو وزیراعظم کے دستخط سے جاری ہوا تھا۔
کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر ریلوے شیخ رشید اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کی۔
اس موقع پر بتایا گیا کہ وزیر قانون سینیٹر فروغ نسیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے ، وہ کل سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید کی نمائندگی کریں گے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ چونکہ وزیر قانون کے طور پر فروغ نسیم عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے تھے اس لیے انہوں نے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دیا، وزیراعظم کی منظوری سے وہ دوبارہ کابینہ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
شیخ رشید نے بتایا کہ وزیراعظم نے فروغ نسیم کا استعفیٰ قبول کرلیا ہے، وہ کل اٹارنی جنرل کے ہمراہ سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔
شیخ رشید نے کہا کہ کابینہ کے کسی رکن نے فروغ نسیم پر تنقید نہیں کی۔
غیر معمولی حالات کے پیشِ نظر آرمی کمانڈ میں تسلسل کا فیصلہ کیا گیا:
شفقت محمود
وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ غیر معمولی حالات کے پیشِ نظر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ آرمی کمانڈ میں تسلسل ہونا چاہیے، غیر معمولی حالات یہ ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیر میں 100 دن سے زائد مدت سے کرفیو نافذ کیا ہوا ہے ، یہ بھی خدشہ ہے کہ پلوامہ جیسا کوئی جھوٹا حملہ کیا جائے ، بھارت نے دریاؤں کا پانی روکنے کی باتیں شروع کردی ہیں ، بھارت دھمکیاں دے رہا ہے۔
پاکستان ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255 میں ترمیم
شفقت محمود نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے پاکستان ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کر دی ہے، ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 255 میں لفظ ’ایکسٹینشن ان ٹینیور‘کا اضافہ کر دیا گیا ہے، حکومت نے عدالت کی مدد کرنے کے لیے رولز میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزراء کا کہنا تھا کہ حالات کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع وزیراعظم کا اختیار ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ کابینہ نے متفقہ طور پر آرمی چیف کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع وقت کا تقاضہ ہے۔