07 دسمبر ، 2019
سی پیک چین کی اپنی ضرورت تھی اور ہے لیکن یہ اُس کی ایسی ضرورت تھی جو اُس سے زیادہ پاکستان کی ضرورت بن گئی۔ خراب معیشت اور قرضوں کی وجہ سے پاکستان اپنے وسائل میں اتنے بڑے پروجیکٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔یہ پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کے لئے ایک سہارا ثابت ہوا اور یہاں پر سرمایہ کاری کے لئے بیرونی دنیا کا اعتماد بحال کرانے کے لئے وسیلہ بنا۔
اس کو اگر صحیح طریقے سے آگے بڑھایا جائے تو یہ پاکستان کی دیرینہ معاشی، سیاسی اور سفارتی بیماریوں کے لئے تریاق کا کام دے سکتا ہے لیکن اگر اس میں روایتی غلطیاں دہرائی گئیں تو یہ پروجیکٹ الٹا ان میں اضافے بلکہ گلے کا طوق بن سکتا ہے۔
معاشی لحاظ سے یہ ہمیں معاشی بحران سے ہمیشہ کے لئے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہماری معیشت کے لئے وہ بنیادیں فراہم کر سکتا ہے جس طرح کی بنیادوں پر چینی معیشت کھڑی ہے لیکن اگر ہم ان غلطیوں کا ارتکاب کرتے رہے جو ابھی تک کر رہے ہیں تو یہ ہمارے معاشی بحران میں اضافے کا بھی موجب بن سکتا ہے۔
سی پیک گلے کا طوق بن سکتا ہے
یہ ہمارے اوپر قرضوں کا بوجھ بڑھا دے گا لیکن اگر ہم اس کو بنیاد بنا کر اپنی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار نہ کر سکے تو ان قرضوں کی ادائیگی کے بھی قابل نہیں رہ سکیں گے۔ ماضی میں امریکہ اور اس کے زیرِ اثر آئی ایم ایف جیسے ادارے ہماری معیشت کے لئے سہارا بنتے رہے۔ مستقبل میں سی پیک کی وجہ سے وہ بھی ہمارے دشمن بن جائیں گے اور آگے جاکر سہارا دینے کے بجائے ہمیں سبق سکھانے کی کوشش کریں گے۔
اب اگر چین کے تعاون اور سی پیک سے ہم نے اپنی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا نہ کیا ہو اور اوپر سے امریکہ کا تھپڑ بھی پڑ جائے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری کیا حالت ہو گی؟ سیاسی حوالوں سے دیکھا جائے تو موٹر ویز اور ریلوے کے منصوبوں کی تکمیل کی صورت میں سی پیک پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان وغیرہ کو آپس میں قریب لانے کے لئے ایک زنجیر بن جائے گا لیکن اگر ہم مختلف وفاقی اکائیوں کے درمیان موجود تفاوت کو ختم یا کم نہ کروا سکے تو الٹا یہ نفرتوں میں اضافے کا موجب بن سکتا ہے۔
سی پیک کے تناظر میں یہ خواب دیکھا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے بلوچستان اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جائے گا لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور یہاں کے لوگ دیکھتے رہے کہ ان کے وسائل کی بنیاد پر شروع ہونے والے سی پیک سے تو دیگر صوبے مستفید ہو رہے ہیں تاہم خود ان کی حالت نہیں بدل رہی تو ان کی محرومیوں میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
یوں سی پیک جہاں ہمارے وفاق کی سیاسی لڑائیوں کو حل کر سکتا ہے، وہاں ان میں اضافے کا بھی موجب بن سکتا ہے۔ سفارتی اور تزویراتی (اسٹرٹیجک) تناظر میں دیکھا جائے تو سی پیک کی وجہ سے چین کے ساتھ ہماری دوستی اقتصادی کے ساتھ ساتھ اسٹرٹیجک دوستی میں بدل گئی ہے۔
اب چین پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو اپنے مفاد میں بھی اپنی سلامتی اور استحکام جیسا ضروری سمجھے گا لیکن چین کے ساتھ قربت اور سی پیک کی وجہ سے گلگت بلتستان، بلوچستان اور پختونخوا جیسے علاقوں پر دشمن ملکوں نے بھی خصوصی نظریں مرکوز کر دی ہیں اور اگر ان کی طرف سے کی جانے والی سازشوں کے پیش نظر ہم نے سی پیک کے ذریعے یہاں کے عوام کی محرومیوں کا خاتمہ نہ کیا تو مستقبل میں یہ پاکستان کے لئے اسٹریٹیجک مصیبت بھی بن سکتا ہے۔
توقع کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت سی پیک کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی غلطیوں کو درست کرے گی لیکن افسوس کہ ان کو درست کرنے کے بجائے وہ نئی اور مزید بھیانک غلطیوں کا ارتکاب کر رہی ہے۔
سی پیک کی جوائنٹ کو آرڈی نیشن کمیٹی میں صوبوں اور گلگت بلتستان و کشمیر کی حکومتوں کو بھی ممبر بنایا جائے
مسلم لیگ (ن) کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اس کی قیادت نے سی پیک پر عمل درآمد کے وقت ملکی ضرورتوں سے زیادہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو پیش نظر رکھا۔ پنجاب میں چونکہ اس کا ووٹ بینک زیادہ تھا، اس لئے زیادہ تر منصوبوں کا رخ پنجاب کی طرف موڑ دیا جس کی وجہ سے بلوچستان، گلگت بلتستان اور پختونخوا جیسے علاقوں سے اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔
ہم جیسے طالبعلم التجائیں کرتے رہے کہ سی پیک کی جے سی سی (جوائنٹ کو آرڈی نیشن کمیٹی) میں صوبوں اور گلگت بلتستان و کشمیر کی حکومتوں کو بھی ممبر بنایا جائے لیکن ایسا کرنے کے بجائے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس پروجیکٹ کو چند وفاقی وزارتوں اور محکموں کا پروجیکٹ بنائے رکھا جس کی وجہ سے صوبے یا پھر گلگت بلتستان اور کشمیر کی حکومتیں اپنی ضروریات اور تحفظات کو اس پروجیکٹ کا حصہ نہ بنا سکیں۔
بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت نے سابقہ حکومت کی ان غلطیوں میں سے کسی ایک کی بھی تلافی نہیں کی۔ مغربی روٹ پر توجہ دی اور نہ گلگت بلتستان اور بلوچستان کو ڈرائیونگ سیٹ پر لانے کی کوشش کی۔ سی پیک کے جے سی سی میں صوبوں اور گلگت بلتستان یا کشمیر کو شامل نہیں کیا گیا۔
ماضی کی طرح اب بھی سی پیک پر عمل درآمد چند وفاقی وزارتوں اور محکموں کی ذمہ داری ہے جبکہ اب اس کے لئے سی پیک اتھارٹی بھی قائم کر دی گئی جس کی وجہ سے صوبوں کا کردار مزید محدود ہو جائے گا۔ احسن اقبال تو پھر بھی سمجھدار اور چینیوں کو پسند تھے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت میں خسرو بختیار کو منصوبہ بندی کے وزیر کی حیثیت سے سی پیک کا انچارج وزیر بنا کر ستیاناس کر دیا گیا۔
اب اسد عمر کو انچارج وزیر بنا دیا گیا جنہیں چینی پسند کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ عمل سے زیادہ قول پر توجہ دینے والے انسان ہیں۔ جو دیگر متعلقہ وزارتیں ہیں، ان کے وزرا کی کارکردگی اور رویے سے چینی دوست پریشان ہیں۔
مخصوص سوچ اور نظام کی وجہ سے چینی اخفا کے اصولوں پر عمل پیرا رہتے ہیں اور سابق حکومت میں بھی ان کو یہ تشویش لاحق رہتی تھی کہ کہیں ان کے معاملات امریکہ کے سامنے افشا نہ ہوں لیکن موجودہ حکومت میں آئی ایم ایف کے نمائندے اہم پوزیشنوں پر بیٹھ گئے ہیں جس کی وجہ سے چینیوں کو یہ تشویش ہے کہ اب کوئی معاملہ امریکیوں سے خفیہ نہیں رہے گا۔
دوسری طرف موجودہ حکومت میں سی پیک پر کام بہت سست پڑ گیا ہے۔ یوں بجا طور پر اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سی پیک سے فائدہ تو پوری طرح نہ اٹھا سکیں لیکن الٹا اس کی وجہ سے امریکہ جیسی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بن جائیں۔
اسی طرح یہ بھی خدشہ ہے کہ امریکہ بھی دشمنی پر اتر آئے لیکن دوسری طرف ہم نے چین اور روس کا بھی مطلوبہ اعتماد حاصل نہ کیا ہو۔ بدقسمتی سے سی پیک سے متعلق اب چین کی طرف سے بھی ایک غلط روش فروغ پا رہی ہے لیکن اس کا ذکر پھر کبھی۔