Time 13 دسمبر ، 2019
پاکستان

بوتلوں کی سرائے ۔۔۔ بوتل گلی

کراچی کے علاقے آرام باغ میں واقع اس بوتل گلی سے کئی کاروبار جڑے ہیں— فوٹو افراح امام

شاہرائیں ، سڑکیں اور گلیاں صرف راہ گزر نہیں ہوتیں بلکہ ان کے اندر  ایک نہیں  بلکہ نت نئی  کئی دنیائیں سمائی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار یہ جہان ان گلیوں کی پہچان بن جاتے ہیں اور پھر لوگ بھول جاتے ہیں کہ ان گلیوں کا اپنا نام کیا تھا جیسا کہ بوتل گلی۔ 

اس گلی کو یہ نام اپنی بناوٹ کی وجہ سے نہیں ملا بلکہ یہ نام اس گلی کی نسبت اس کے اندر استعمال شدہ اور کسی حد تک نئی بوتلوں سے جڑے بڑے چھوٹے کاروبار کی وجہ سے ملا۔

نہیں معلوم کہ یہ گلی کب سے بوتل گلی ہے کیونکہ اصل نام تو لوگ کب کا بھول چکے۔

کراچی کے علاقے آرام باغ میں واقع اس بوتل گلی سے کئی کاروبار جڑے ہیں۔ گھرگھر سے کاٹھ کباڑ جمع کرنے والے، شیشے کی بوتلیں چھانٹی کرنے والے، چھانٹی شدہ بوتلوں کی سائز ڈیزائن وغیرہ کے حساب سے مزید چھانٹی پھر ان کی صفائی اور  پھر ان بوتلوں کی دوبارہ خرید یعنی اس گلی میں موجود بوتلوں کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی دنیا بھی گول ہے۔

بوتلیں یہاں سے نکل کر اپنے نئے سفر پر نکل جاتی ہیں پھر ان سے  کچھ لوگوں کا کاروبار جُڑ جاتا ہے اور پھر یہی بوتلیں سفر پورا کرکے واپس اسی گلی میں  ایک نئے  سفر کے انتظار میں آجاتی ہیں۔

کراچی کے علاقے آرام باغ میں واقع اس بوتل گلی سے کئی کاروبار جڑے ہیں—فوٹو افراح امام

عبدالرزاق صاحب کا کاروبار بھی بوتل گلی میں ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں تقریباً پچاس 55 سال سے موجود ہیں۔ عبدالرزاق صاحب کے مطابق یہ گلی پاکستان بننے سے پہلے کی ہے، اس وقت یہ گلی پارسی گلی کہلاتی تھی کیونکہ اسے آباد کرنے والے پارسی تھے۔ اس وقت اس گلی میں ہندو بنیوں کی بھی دکانیں تھیں لیکن کام تب بھی یہاں خالی بوتلوں کا ہی کام ہوتا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد اس گلی کا نام سرائے کوارٹرز ہو گیا۔ اس وقت یہاں کے پرانے رہائشی کوچ کر گئے اور ان کی جگہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے یہاں رہائش پذیر ہو گئے اور کاروبار بھی کرنے لگے۔

مشتاق صاحب کی تیسری نسل بوتل گلی میں استعمال شدہ بوتلوں کے کاروبار سے منسلک ہے۔ انہوں نے بوتل گلی میں ہونے والے کاروبار کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ گلی گلی گھومنے والے ریڑھی والے کباڑیے یہاں گھروں سے کباڑ لاتے ہیں، اسے خریدنے والے الگ کاروباری لوگ ہوتے ہیں۔ کباڑ کی چھانٹی خود بھی کرواتے ہیں اورکباڑ کی فروخت چھوٹے پیمانے پر چھانٹی کے کاروبار سے منسلک لوگوں کو بھی کرتے ہیں۔

ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے یہاں رہائش پذیر ہو ئے اور بوتل گلی میں کاروبار کرنے لگے— فوٹو افراح امام

محمد جمیل صاحب بوتل گلی ہی میں کباڑ سے چھانٹی گئی بوتلوں کی صفائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گلی ایک ماں جیسی ہے جو نجانے کتنوں کو پال رہی ہے۔

جمیل صاحب کا کہنا ہے کہ بوتل گلی اب کافی تبدیل ہو چکی ہے، اب گلاس بوتل کا کام ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ پلاسٹک بوتل لے چکی ہے۔ کم قیمت ہونے کی وجہ سے لوگوں میں پلاسٹک کے استعمال کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔

جمیل صاحب کے مطابق پہلے کی چہل پہل کی بات ہی الگ تھی، اب تو یہاں زیادہ ترچھوٹے کاروباری لوگ آتے ہیں، کبھی کبھی کوئی بندہ ذاتی استعمال کے لیے بوتلیں لینے بھی آجاتا ہے۔ ادھر پہلے خواتین کا بھی آنا ہوتا تھا، وہ سجاوٹ کے لیے بوتلیں لے جاتی تھیں کیونکہ یہ استعمال شدہ بوتلیں گلدانوں کے مقابلے میں سستی ہوتی ہیں لیکن اب ان کا آنا کم ہو گیا ہے۔

جمیل صاحب بتاتے ہیں کہ یہاں کاروبار زوال پذیر ہو گیا ہے، اصل کمائی شیشے کی تھی ، پلاسٹک کی کمائی میں فائدہ اتنا نہیں ہے۔

 اب گلاس بوتل کا کام ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ پلاسٹک بوتل لے چکی ہے— فوٹو افراح امام

جمیل صاحب کی بات کی گواہی اس گلی میں موجود دکانوں پر پہلی نظر پڑتے ہی مل جائے گی۔ ہر طرف پلاسٹک کی ہر سائز اور انداز کی بوتلوں کے انبار موجود ہیں، جن میں شیشے کی بوتلیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ دوسری نظر ڈالتے ہی اندازہ ہو گا کہ یہ گلی اب صرف بوتل گلی نہیں رہی بلکہ یہاں کیمیکلز ، عطریات اور دیگر خوشبویات(پرفیومز) کی دکانیں بھی کھل چکی ہیں۔

یہاں کیمیکلز ، عطریات اور دیگر خوشبویات(پرفیومز) کی دکانیں بھی کھل چکی ہیں— فوٹو افراح امام

شمشاد صاحب کا تعلق پہلے شیشے کی بوتلوں کے کاروبار سے ہی تھا لیکن بدلتے وقت نے انہیں اپنے کاروبار کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کام نہ ہونے کے وجہ سے پرانے کاروباری لوگ یہ گلی چھوڑ گئے۔ انہیں اس گلی کی اتنی عادت ہو چکی تھی کہ وہ اپنی عادت تو نہ بدل سکے البتہ اپنا کاروبارکی نوعیت ہی تبدیل کر ڈالی۔

شمشاد صاحب کرتے تو پلاسٹک کی بوتلوں کا کاروبار ہیں لیکن وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے مطابق پلاسٹک کا مستقبل بھی پلاسٹک ہی ہے۔ لوگوں کو ایسی لت لگ چکی ہے کہ پلاسٹک کی کہ اب چاہے کتنا بھی شور مچے وہ پلٹ کر شیشے کی طرف نہیں آئیں گے۔

بوتل گلی کے مسائل کچھ ایسے بھی ہیں جن پر دھیان نہیں دیا گیا— فوٹو افراح امام

محمد یوسف کا بوتل گلی میں شیشے اور پلاسٹک کی بوتلوں کا کاروبار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس گلی کے کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جن کی طرف کبھی کسی نے دھیان نہیں دیا اور یہی مسائل گلی سے شیشے کی بوتلوں اور پھر بوتلوں کے کاروبار کے خاتمے کا سبب بنے۔ ہم لوگ کئی دفعہ احتجاج بھی کر چکے لیکن نتیجہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔

بوتل گلی میں کاروبار کرتے ہوئے یوسف کی یہ چوتھی نسل ہے۔ ان کے دادا کا کام بمبئی میں تھا۔ ان کے مطابق بوتل گلی کی تقریباً سو سالہ تاریخ ہے۔ یہاں والے انڈیا ہجرت کر گئے اور وہاں سے یہاں اسی کام سے منسلک لوگ یہاں آ کر بس گئے۔

محمد یوسف صاحب کے بیٹے بھی کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ وہ کاروبار میں نفع کے لیے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ اس سے کاروبار میں مدد تو ملتی ہے لیکن ابھی بہت وقت لگے گا کاروبار کو دوبارہ اصل حالت میں لانے کے لیے ۔

بوتل گلی میں اب بھی پرانی شیشے کی بوتلیں پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہیں— فوٹو افراح امام

تنویرحسین کی دکان پر اب بھی پرانی شیشے کی بوتلیں پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہیں۔ انہوں نے انتہائی دلچسپی سے شیشے کے فوائد پر روشنی ڈالی۔ کاروبار کے کل اور آج کے بارے میں بتایا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے یہاں صرف پرانی بوتلیں ملتی تھیں اب نئی بوتلیں زیادہ تعداد میں ملتی ہیں۔

گلی تک پہنچنے والی بوتلوں کے بارے میں تنویر حسین نے بتایا کہ پہلے یہاں لوگ خود بھی کسی نہ کسی مجبوری کے تحت خوبصورت اور منفرد بوتلیں بیچنے آجاتے تھے۔ خوبصورت بوتلیں چار ہزار تک بک جاتی تھیں اب بھی کافی مہنگے داموں بکتی ہیں لیکن سال میں ایک آدھ بار۔ 

ایک دفعہ یہاں آنے والی بوتلوں میں سونے کا لیبل لگی بوتل بھی تھی لیکن پلاسٹک سے پاکستان میں شیشے کی صنعت بھی خراب ہوئی ہے۔

خوبصورت بوتلوں کے بارے میں تنویر حسین کا کہنا تھا کہ یہاں زیادہ تر بوتلیں مخصوص مشروب کی آتی ہیں۔ پینے والے پی کر یہاں دے جاتے ہیں اور یہاں سے لوگ سجاوٹ کے لیے یا پودے لگانے کے لیے لے جاتے ہیں، دیکھیے ایک ہی شے کے دو مختلف استعمال بھی ہو سکتے ہیں۔

 نوجوان اس کام میں اتنی دلچسپی نہیں لے رہی ہے— فوٹو افراح امام

یوسف صاحب نے نوجوان نسل کی کاروبار مں عدم دلچسپی پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان اس کام میں اتنی دلچسپی نہیں لے رہے۔ ہمارے والدین نے ہمیں تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی سکھایا ، ہم نے زمانے کے دھکے کھائے مگر کام بھی جاری رکھا اور اسے ترقی بھی دی۔

یوسف صاحب کا کہنا ہے کہ تقریباً 18 خاندان اس ایک گلی سے جڑے ہوئے ہیں۔گلی گنجان ہوجانے کی وجہ سے اب بوتلوں کی صفائی شیر شاہ کے علاقے میں چلی گئی ہے۔

بوتل گلی کی بوتلوں کے کاروبار سے منسلک یوسف صاحب اور دیگر کاروباری حضرات کے مطابق تمام دنیا میں بوتل گلی اپنی نوعیت کی واحد گلی ہے۔ کباڑیہ تو فرانس میں بھی بیٹھا ہوا ہے لیکن اسے اس طرح کی گلی نصیب نہیں ہے۔

پہلے یہاں صرف پرانی بوتلیں ملتی تھیں اب نئی بوتلیں زیادہ تعداد میں ملتی ہیں— فوٹو افراح امام

اجمل صاحب صرف شیشے کا کاروبار ہی نہیں کرتے بلکہ وہ اس موضوع میں بھرپور دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔ وہ اب بھی شیشے کے دوبارہ سے استعمال میں آنے کے لیے پر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شیشہ دوبارہ سے آئے گا کیونکہ اس کا متبادل کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہم تو بھیڑ چال کا حصہ بن گئے۔ شیشے سے سورج کی شعاع پار نہیں ہوتی اس لیے اس میں رکھی گئی چیز خراب نہیں ہوتی ۔

اس کی مثال انہوں نے کچھ یوں دی کہ شیشے کی بوتل یا گلاس میں رکھی ہوئی چیز کی خراب ہونے کی تاریخ اور پیٹ بوتل یعنی پلاسٹک کی بوتل پر لکھی ہوئی معیادی تاریخ الگ الگ ہوتی ہے۔ سورج کی شعاع پار کر گئی تو پراڈکٹ خراب ہو جاتی ہے۔شیشے کی بوتل میں دو سال تک چیز محفوظ رکھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے اب کھانے پینے کی اشیا کو محفوظ رکھنے کے معیارات عالمی سطح پر تبدیل ہو رہے ہیں۔

اس گلی میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے اور بہت کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے، ایک واحد اس گلی کی پہچان اس کا نام ہے جو بوتل گلی ہی رہے گی۔

مزید خبریں :