Time 15 دسمبر ، 2019
کھیل

ٹیسٹ کی 10سال بعد پاکستان میں واپسی اور پی سی بی!

فوٹو: پی سی بی 

پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم راولپنڈی 2004ء کے بعد پہلی بار ٹیسٹ میچ کا میزبان بنا،اور 2009ء کے بعد وطن عزیز میں پہلا ٹیسٹ میچ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان شروع ہوا، تو جڑواں شہروں راولپنڈی، اسلام آباد کے عوام طالبعلموں نے جس جوش اور جذبے کا مظاہرہ کیا اسے قابل تحسین کہا جا سکتا ہے۔

سیکیورٹی کے شاندار انتظامات پر پاک فوج کے جوان اور پولیس اہلکار بجاطور پر تعریف کے مستحق ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ جو براہ راست اس معاملے میں میزبان تھا، اس کی جانب سے بھی اس حوالے سے خاصی تحریک نظر آئی البتہ پہلے چار دن بارش اور خراب روشنی کے سبب جہاں سری لنکا کی ایک اننگز کا کھیل بھی مکمل نہ ہوا اس کے لیےکئی سوالات اب زبان زد عام ہیں؟ 

بورڈ نے مارچ 1982ء میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاک سری لنکا اولین ٹیسٹ کے کپتانوں جاوید میانداد اور بندولا ورنا پورا کو بطور مہمان خصوصی تو بلایا، البتہ اچھا ہوتا ایشین بریڈ مین اور آئی سی سی کے سابق صدر ظہیر عباس کو بھی مدعو کر لیا جاتا۔غالباً بورڈ نے چیف ایگزیکٹو وسیم خان پر تنقید کرنے کے سبب ظہیر عباس کو بلانا مناسب نہیں سمجھا ہو، اگر ایسا تھا تو حالیہ عرصے میں بورڈ کی پالیسیوں اور ٹیم کی ناقص پرفارمنس پر تو جاوید میانداد بھی خاصے غصے میں نظر آئے تھے۔

فوٹو:پی سی بی

 اسلام آباد میں مقیم راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر آسڑیلیا میں تھے درست! بورڈ انہیں کیسے بلاتا؟ لیکن راولپنڈی میں ماضی میں ٹیسٹ میچ کے دوران گیند اٹھانے والے محمد وسیم جنہوں نے اپنے اولین پہلے ٹیسٹ میں سینچری بنائی، وہ تو راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ اطلاعات ہیں  ڈومیسٹک کرکٹ میں ناردن ٹیم کے کوچ محمد وسیم کا ایکریڈٹیشن کارڈ ہی نہیں بنا تھا اور یوں وہ پی ٹی وی پر میچ کی نشریات دیکھ کے خاموشی سے گھر چلے جاتے خیر محمد وسیم کی بورڈ سے درخواست پر آخر کار انہیں ٹیسٹ میچ شروع ہونے کے تین دن بعد ایکریڈٹیشن کارڈ مل ہی گیا۔

 سابق ٹیسٹ کپتان راشد لطیف اب بھی اسلام آباد میں رہتے ہیں ، وہ بھی اس یادگار ٹیسٹ کو دیکھنے چند منٹ کے لئے اسٹیڈیم نہ آئے، سابق ٹیسٹ کرکڑز کو مدعو کرنا تو دور کی بات راولپنڈی میں عمدہ پرفارمنس پیش کرنے والے کرکٹرز کو سوشل میڈیا ویڈیو پیغام ہی ڈال دیا جاتا تو دنیا میں ایک اچھا تاثر جاتا۔

 اطلاعات کے مطابق پنڈی اسٹیڈیم راولپنڈی میں پاکستان سوپر لیگ کے دوران اسلام آباد یونائیٹڈ کا راولپنڈی ہوم گراؤنڈ ہوگا، اس حوالے سے بھی یہ تشہیر کا بہترین موقع تھا، جس سے میری نگاہ میں فائدہ اٹھانے کی زحمت اٹھانا تو دور کی بات تمام فرنچائز کے مالکان کا بلایا جاتا، تو میڈیا کے نمائندوں کے لئے اچھی خبر بن سکتی تھی لیکن دیکھا گیا کہ پشاور زلمی کے جاوید آفریدی اور ملتان سلطان کے علی ترین دوران ٹیسٹ اسٹیڈیم میں تو دکھائی دیئے مگر باقی فرنچائزز کے کرتا دھرتا کہیں نظر نہ آئے۔

اس کے برعکس مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2017ء میں جب ورلڈ الیون تین ٹی 20میچوں کے لئے لاہور آئی تو اس وقت پی سی بی نے سابق چئیر مین کرکٹ بورڈ اور سابق ٹیسٹ کپتانوں ، شاہد آفریدی اور مصباح الحق کو بلا کر تقریب اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا شاندار انداز میں جشن منایا تھا، یہاں تو سابق ٹیسٹ کپتان رمیز راجا بورڈ کے فیصلوں اور راولپنڈی ٹیسٹ کے وقت پر ہی سوال اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس موسم میں اگر پہلا ٹیسٹ کراچی میں رکھ لیا جاتا تو کیا مناسب نہیں تھا۔

فوٹو:پی سی بی

پاکستان کرکٹ بورڈ کی تاریخ کے مہنگے ترین میڈیا ڈائریکٹر سمیع الحسن برنی جو ماضی میں آئی سی سی سے وابستہ رہے ہیں ، بورڈ کے معاملات پر وضاحت دینے کے بجائے، عموماً ناراضگی دکھاتے نظر آتے ہیں۔ بطور صحافی پی سی بی کی کوتاہییوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنے والے صحافیوں کو کنڑول کرنے کے بجائے، اگر وہ اپنا مؤقف پیش کرسکیں تو مناسب ہوگا۔ 

تاریخ کے مہنگے ترین ڈائریکٹر میڈیم کبھی بورڈ کے بارے میں سچ لکھنے والے صحافی حضرات کا یا تو فون بلاک کرتے ہیں یا پھر ان کا فون اٹھانے کی زحمت ہی نہیں کرتے ہیں ،ایسی صورت حال میں بورڈ کے چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹو وسیم خان کا موقف بجائے سب کی دسترس میں ہو چند من پسند صحافیوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

راولپنڈی ٹیسٹ کے پہلے دن پریس بکس میں انڑ نیٹ سروس معطل ہونے کے سبب چند سری لنکا کے صحافی اپنے ہوٹل جانے پر مجبور ہوگئے کچھ انہی معاملات کا سامنا راولپنڈی ٹیسٹ کے پہلے دن اسٹیڈیم آنے کے حوالے سے صحافیوں کو بھی ہوا تھا جو ٹیسٹ کے باقی دنوں میں بہتر ہوگیا۔

 قذافی اسٹیڈیم لاہور، راولپنڈی اسٹیڈیم اور نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی نے “ آنرز بورڈ” آویزاں کر کے اچھا کام ضرور کیا۔ لیکن اگر وہ بطور ڈائریکٹر میڈیا صحافیوں اور سابق ٹیسٹ کرکٹرز کیساتھ پیشہ ورانہ انداز میں تعاون اور بروقت معلومات پہچانے کی پالیسی پر نظر ثانی کریں اور صحافیوں کی رہنمائی کریں تو بورڈ اور پاکستان کرکٹ کے لئے معاملات الجھنے کے بجائے سلجھنے کی سمت کی جانب گامزن ہوں گے۔

مزید خبریں :