دنیا
Time 18 دسمبر ، 2019

طلبہ پر تشدد کیخلاف بالی وڈ اداکار بھی بول پڑے

رتیش دیش مکھ نے طلبہ کے احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ میں پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ کے ساتھ ہوں— فوٹو:فائل

بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ طلبہ بھی سراپا احتجاج ہیں اور مودی سرکار کے خلاف احتجاج کی قیادت کررہے ہیں، ان ہی طلبہ سے اظہار  یکجہتی کے لیے بالی وڈ سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔

شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج میں نئی دہلی کی جامعہ ملیہ، اترپردیش کی علی گڑھ یونیورسٹی اور لکھنؤ کے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلبہ پیش پیش ہیں جب کہ بھارت کی دیگر بڑی جامعات اور تعلیمی اداروں کے طلبا بھی احتجاج کررہے ہیں۔

گذشتہ دنوں نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ کو احتجاج سے روکنے کے لیے پولیس یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر جامعہ کے اندر داخل ہوگئی اور وہاں انہوں نے نہتے طلبہ پر بد ترین تشدد کیا۔

پولیس اہلکار ایکشن کے دوران یونیورسٹی کی مسجد ، لائبریری اور گرلز ہاسٹل میں بھی داخل ہوئے اور طلبہ پر بدترین لاٹھی چارج کیا جس کے باعث متعدد طلبہ زخمی ہوگئے جب کہ متعدد کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔

فوٹو:سوشل میڈیا

طلبہ پر تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا ہر آنے کے بعد پورے بھارت کے تعلیمی اداروں کے طلبہ سڑکوں پر نکل آئے جب کہ مختلف سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت بالی وڈ اداکاروں کی جانب سے بھی اس عمل کی مذمت کی گئی۔

بھارتی اداکار رتیش دیش مکھ نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں طلبہ کے احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ میں پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ کے ساتھ ہوں،ہمارے یہاں سب کی آواز سنی جاتی ہے چاہے ایک شخص ہو یا ایک ہزار افراد،اوریہی چیز ہمارے ملک کو عظیم بناتی ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ میں کسی بھی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کرتا،ہمیں ہمیشہ اپنی پولیس پر فخر رہا ہے تاہم اس مرتبہ انہیں اس معاملے میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ ہمارے طلبہ اس کے حقدار نہیں ہیں۔

بھارتی اداکارہ تپسی پنو نے بھی طلبہ پر بھارتی پولیس کی جانب سے بدترین تشدد کی مذمت کرتے ہوئے احتجاجی طلبہ کی متعدد تصاویرکو ٹوئٹ کیا۔

ایک ٹوئٹ میں پولیس تشدد سے متاثرہ جامعہ ملیہ کی طالبہ کی فوٹیج ری ٹوئٹ کرتے ہوئے تپسی پنو کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو نئے قوانین میں خود کو محفوظ تصور نہیں کررہے ان کی صورتحال بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔

تپسی کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو نے ہمارے دل اور امیدیں ایک ساتھ توڑ دی ہیں جوکہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔

ویڈیو میں طالبہ کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے ان پر اور ان کے ساتھی طلبہ پر بد ترین تشدد کیا گیا، آج ان کا امتحان تھا اب میں کیا پڑھوں اور کیا امتحان دوں، طالبہ نے سوال اٹھایا کہ ہمیں کون جواب دے گا کیا یہ جمہوریت ہے؟

اس سے قبل بالی وڈ اداکار اکشے کمار کو جامعہ ملیہ طلبہ پروحشیانہ تشدد کی ویڈیو کو لائک کرنا مہنگا پڑ گیا تھا اور مداحوں نے انہیں بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جس پر انہوں نے اسے ’اَن لائک‘ کر دیا تھا۔

اس حوالے سے اکشے کمار نے  ٹوئٹر پر وضاحتی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پروحشیانہ تشدد کرنے کی ویڈیوکو میں نے ’لائک‘ غلطی سے کیا تھا‘۔

انہوں نے مزید لکھا کہ در اصل دوسری ٹوئٹس کو دیکھتے ہوئے مجھ سے لائک ہوگیا تھا تاہم تھوڑی ہی دیر بعد جب مجھے احساس ہوا توفوراً ہی اسے ’اَن لائک‘ کردیا تھا کیونکہ میں اس طرح کسی بھی تشدد کا حامی نہیں ہوں۔

متنازع شہریت قانون کیا ہے؟

متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔

بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔

تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔

ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔

متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔

مزید خبریں :