21 دسمبر ، 2019
وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک جا رہے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کشمیریوں کے سفیر کی حیثیت سے جا رہے ہیں اور یہ کہ ان کا یک نکاتی ایجنڈا کشمیر ہوگا لیکن جاتے ہوئے وہ پہلے سعودی عرب چلے گئے۔
حالانکہ سعودی عرب نے تب تک کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت کی تھی اور نہ او آئی سی کا اجلاس طلب کرنے پر آمادہ تھا، یوں اگر ترجیح کشمیر تھا تو پھر ان ممالک سے ہوکر جانا چاہئے تھا جو کشمیر پر بھارت کو ناراض کرکے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اور ظاہر ہے وہ ترکی، ملائیشیا اور کسی حد تک ایران تھے۔
یہ پہلا سفارتی بلنڈر تھا، پھر سعودی عرب سے نیویارک جاتے ہوئے کراؤن پرنس محمد بن سلمان کے ذاتی جہاز میں جانے کی پیشکش قبول کی، عالمی فورم پر ایک تیسرے ملک کے حکمران کے ذاتی جہاز میں جانا پاکستان کے بھکاری ہونے کا تاثر دے رہا تھا، یہ دوسرا سفارتی بلنڈر تھا۔
نیویارک میں عمران خان نے امریکہ اور ایران کے مابین ثالثی کا دعویٰ کر دیا، آپ اندازہ لگا لیجئے کہ ایران نے سعودی حکمران کے جہاز میں وہاں جانے والے عمران خان کی طرف سے اس دعوے کو کس طرح لیا ہوگا۔
دوسری طرف انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ میں جس ملک کے جہاز میں بیٹھ کر آیا ہوں، وہ تو امریکہ کو ایران کے خلاف چڑھ دوڑنے کے لئے ورغلا رہا ہے اور یہ کہ اس تیس مارخانی پر اس ملک کا کیا ردعمل ہوگا، یہ تیسرا سفارتی بلنڈر تھا۔
نیویارک میں ملائیشیا، ترکی اور ایران کے حکمرانوں نے عالم اسلام کے مسائل کیلئے ایک نیا اتحاد بنانے اور مشترکہ ٹی وی چینل لانے کی تجویز پیش کی، یہ نہیں سوچا گیا کہ اس اتحاد میں شمولیت پر عرب اتحادیوں کا کیا ردعمل ہوگا بلکہ الٹا اس اتحاد کو اپنا بڑا کارنامہ قرار دیا جانے لگا۔
مشترکہ ٹی وی چینل کے حوالے سے خود وزیراعظم نے ٹویٹ بھی کی، یہ چوتھا سفارتی بلنڈر تھا، عمران خان امریکہ میں ہی تھے کہ سعودی عرب کے حکمرانوں نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور اس کی وجہ سے جہاز کی نیویارک واپسی کی ہزیمت بھی پاکستان کو اٹھانا پڑی۔
اب حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ خاموشی کے ساتھ پی آئی اے یا پھر کسی اور ملک کی ائیر لائن سے واپس پاکستان چلے آتے لیکن واپسی کے لئے پھر سعودی عرب کا روٹ اختیار کیا گیا، جدہ ائیر پورٹ پر سعودی حکمران تو کیا گورنر تک نے پاکستانی وزیراعظم کو پروٹوکول نہیں دیا اور وہ وزیر خارجہ کے ساتھ وی آئی پی لاؤنج میں بے یارو مددگار مسافروں کی طرح چادر اوڑھ کر سوئے رہے، یہ پانچواں سفارتی بلنڈر تھا۔
اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بہر صورت راضی رکھنا مجبوری ہے اور بدقسمتی سے موجودہ حکمرانوں نے مجبوری بنا دیا ہے تو پھر عقل کا تقاضا یہ تھا کہ نیویارک سے واپسی پر مجوزہ اتحاد اور ملائیشیا میں طے پانے والی کانفرنس سے دوری اختیار کر لی جاتی لیکن ایسا کرنے کے بجائے آخری وقت تک مذکورہ تینوں ممالک سے کہا جاتا رہا کہ پاکستان حصہ رہے گا۔
صرف یہ نہیں بلکہ پاکستان کے اصرار پر کوالالمپور کانفرنس کے ایجنڈے میں کشمیر کا ایشو بھی شامل کیا گیا، تجربہ کار سفارتکار عمران خان کو متوجہ کرتے رہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی شرکت پر رضامند نہیں ہو سکتے لیکن وہ اس گھمنڈ میں مبتلا رہے کہ بس ایک ملاقات کی دیر ہے اور وہ محمد بن سلمان کو راضی کر لیں گے۔
چنانچہ گزشتہ ہفتے کے آغاز میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے وزیراعظم کے بیرونِ ملک سفر کا شیڈول جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پہلے سعودی عرب، پھر بحرین، پھر جینوا اور وہاں سے ملائیشیا جائیں گے۔
وزیراعظم سعودی عرب گئے اور سعودی عرب میں ہی تھے کہ یہ فیصلہ سامنے آیا کہ وزیراعظم ملائیشیا کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے اور ان کی جگہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی نمائندگی کریں گے، یہ چھٹا سفارتی بلنڈر تھا۔
سعودی عرب جانے اور وہاں جاکر ملائیشیا نہ جانے کے اعلان سے ترکی، ملائیشیا اور ایران کو پیغام ملا کہ پاکستان نے ہماری ناقدری کی اور وہ بھی سعودی عرب کی وجہ سے۔ جس کی وجہ سے لامحالہ ان کی ناراضی دگنی ہوگئی ہوگی، گویا ہم نے کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دینے والے ان تین دوست ممالک کو پیغام دیا کہ ہم ان کے حریف سعودی عرب سے اس قدر مجبور ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کر سکتے۔
اس پر بھی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اگلے دن ایک اور سفارتی بلنڈر یہ فیصلہ کرکے کیا گیا کہ اب وزیر خارجہ بھی نہیں جائیں گے، یہ ساتواں سفارتی بلنڈر تھا، اب جس فورم کا قیام دو ماہ قبل پاکستان کے وزیراعظم کے ساتھ مشاورت کے ساتھ چار دوست ممالک عمل میں لائے تھے اور جس کے پہلے اجلاس کے ایجنڈے میں کشمیر کو بھی شامل کر دیا گیا تھا، اس میں شرکت سے پاکستان مکر گیا۔
بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بعد پوری دنیا میں چین کے علاوہ یہ تین ممالک تھے جو پاکستان اور کشمیر کی حمایت میں سامنے آئے تھے لیکن اب سوال یہ ہے کہ ہمارے اس سلوک کے بعد کیا وہ اسی طرح ہمارے حامی رہ گئے ہوں گے، یقیناً سعودی عرب ہمارا عظیم دوست ہے لیکن پاکستان کی ہر حکومت نے اپنی غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کو یقینی بنایا ہے اور پاکستان اسلامی ممالک کی باہمی کشمکش بالخصوص ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت میں فریق نہیں بنا۔
سعودی عرب سے قربت کے باوجود ایران، ترکی اور ملائیشیا پاکستان کے بارے میں مطمئن رہے کہ ان سے متعلق پاکستان کی پالیسی کسی اور ملک کے دبائو سے آزاد ہے لیکن ہم نے پہلی مرتبہ اپنی سفارتی حماقتوں سے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد نہیں۔ اس سے بڑی عالمی رسوائی اور کیا ہو سکتی ہے لیکن افسوس کہ اس کا احساس ہے اور نہ ملک میں اس کا تذکرہ ہو رہا ہے۔
یہ تو صرف اسلامی اور دوست ممالک کامعاملہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سوا سال کے دوران چین اور امریکہ کے فرنٹ پر بھی ایسے بلنڈرز کا ارتکاب کیا گیا ہے کہ آنے والی حکومتوں کے لئے بھی ان کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔
بدقسمتی سے عمران خان صاحب سفارتی نزاکتوں کا پوری طرح ادراک نہیں رکھتے لیکن وہ اپنے آپ کو عالمی لیڈر سمجھنے لگے ہیں جبکہ دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ ہوکر بھی وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
ہر حساس فورم اور غیرملکی دورے پر تجربہ کار لوگوں کی بجائے زلفی بخاری جیسے پراسرار کردار وزیراعظم کے ساتھ ہوتے ہیں جن کی نظر اپنے ذاتی کاروبارکو وسعت دینے پر ہوتی ہے۔ نتیجتاً سفارتی بلنڈرز کا ایسا سلسلہ چل پڑا ہے جس نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا لیکن چونکہ مہنگائی جیسے مسائل کی طرح اس کے اثرات فوری نہیں نکل رہے ہیں، اس لئے اس طرف دھیان نہیں۔ حیران ہیں کہ بلنڈرز کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔