20 دسمبر ، 2019
عمران خان کے ہاتھوں سے بطور وزیراعظم وقت اور اختیار ریت کی طرح پھسل رہا ہے ۔ بدانتظامی، سسٹم کی عدم فعالیت سمیت کسی منظم حکمت اور جامع پالیسی کے بغیر محض دعوؤں اور وعدوں سے نظام حکومت چلانے کا ’’ہنر‘‘ عوامی ترقی و کامیابی کی ہمت پر آسیب کی طرح منڈلا رہا ہے۔
حکمرانوں کی بدزبانی اور غیرشائستہ الزامی طرزِ تکلم نے نئے پاکستان کے خواب کو ڈراؤنا بنا دیا ہے۔ اپوزیشن کی انتھک در پردہ کوششوں سے طے پانے والی ’’ڈیلوں اور ڈھیلوں‘‘ کی سیریز جاری ہے اور سزا یافتہ ہونے کے باوجود مرضی کی رعایتیں لے کر بیرونِ ملک اڑان بھرنے والوں نے این آر او نہ دینے کے دعویدار حکمرانوں کے دن کا سکون اور رات کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
عوام پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’لٹیروں اور ڈاکوؤں‘‘ کو اندر کر کے حساب کتاب اور اربوں کی برآمدگی کے دعوے کیا ہوئے؟ ڈیڑھ سال بعد مجرموں اور ملزموں سے ایک دھیلا برآمد ہوا نہ جیلوں میں رکھ کر اعتراف جرم کرایا جا سکا۔ غضب خدا کا 190ملین پاؤنڈ کی واپسی کا خراج اور داد لینے کو کوئی تیار نہیں۔
احتساب کے نعرے کا اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا کہ آپ کی اجازت سے ’’مجرم‘‘ طیارے سے اپنے بیٹوں کے دیس چلا گیا، ’’روک سکو تو روک لو‘‘ نعرہ لگانے والے مضبوط قوت ارادی اور بہتر منصوبہ بندی سے للکار رہے ہیں کہ اگر ’’حکومت‘‘ میں ہو تو روک کر دکھاؤ! چھوٹا بھائی تو ساتھ نکل گیا، اب خاموش صاحبزادی کی باری ہے۔
جن کا وعدہ تھا کہ سلیکٹڈ حکمرانوں اور طاقتوروں سے کسی رعایت کی بھیک نہیں مانگیں گے، ووٹ کو عزت دینے کی خاطر وہ اور ان کے والد وطن پر جان قربان کر دیں گے لیکن کبھی باہر نہیں جائیں گے۔ وقت بدل گیا اور سیاسی چالیں بھی تبدیل ہو گئیں۔
باخبر حلقے کہتے ہیں کہ باپ بیٹی فوری طور پر نہیں بلکہ آئندہ انتخابات سے کچھ پہلے بھرپور تیاری کے بعد ہی اب وطن واپس آئیں گے اس دوران چھوٹا بھائی بااختیار ہوکر ’’مفاہمتی عمل‘‘ کو کامیاب بنائے گا، پارٹی کو زندہ رکھے گا اور طاقتوروں سے آئندہ کے اقتدار کے فارمولے کو انجام تک پہنچائے گا۔
عوام کے لئے باعث حیرت ہے کہ ان کے ساتھ ہر حال میں کھڑے ہونے کے دعویدار اپوزیشن جماعتوں کے 40سے 50فیصد ارکان ملک سے باہر ہیں باقیوں کی آنیاں جانیاں، سیر سپاٹے اور غیر ملکی ریستورانوں میں حکومت کے خاتمے کی حکمت عملی کے اجلاس جاری ہیں۔
سب پر بھاری بیمار کی ضمانت و مفاہمت کا معاملہ بھی طے ہو چکا ہے، بیٹے کی محتاط زبان عندیہ دے رہی ہے کہ بہت جلد وہ بھی شاہی یا نجی پرواز سے طویل ’’علاج‘‘ کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ شاید یہی تبدیلی ہے!
معاشی تبدیلی نے بھی تباہی مچا رکھی ہے، ایک طرف آئی ایف ایم کے قرضے کے ساتھ بطور تحفہ ملنے والے گورنر اسٹیٹ بینک، خان صاحب کو تقریروں سے شیشے میں اتار چکے ہیں تو دوسری طرف اسٹیٹ بینک کی رپورٹ معاشی حالات کا پردہ چاک کر رہی ہے۔
رپورٹ کہتی ہے عوام پر پیٹرول، گیس، بجلی اور ٹیکس بڑھانے کے باوجود ٹیکس وصولی کی شرح گر چکی ہے، 10سال میں غیر ملکی قرضے سالانہ 5ارب ڈالر تھے جو ستمبر 2018سے ستمبر 2019تک 10.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، فارن ریزرو اگست 2018 میں 10.2 ارب ڈالر تھے جو کم ہوکر 8.5 ارب ڈالر ہیں۔ 2018میں غیر ملکی سرمایہ کاری 5ہزار 7سو ملین ڈالر سے آدھی ہوکر تقریباً اڑھائی سو ملین ڈالر رہ گئی ہے۔
آج بجٹ خسارہ 8.9فیصد ہےجو 2018 میں 6.6تھا اور 2024ء تک 7 فیصد رہے گا۔ تجارتی خسارہ اور امپورٹس کم ہو رہی ہیں لیکن ایکسپورٹس بھی نہیں بڑھ رہیں۔
اسٹیٹ بینک تسلیم کرتا ہے کہ دنیا بھر میں ڈیپازٹ پر شرح سود ایک سے ڈیڑھ فیصد ہے لیکن بینک کے نئے سربراہ نے موجودہ اور نئے غیر ملکی ڈیپازٹس (ٹریژری بلز) پر شرح سود بلند ترین سطح 13فیصد مقرر کر دی ہے۔
گورننس یا کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے محض ٹویٹر کو طرہ امتیاز بنانے والے اب بھی مصر ہیں کہ موجودہ حالات اور وسائل میں اتنی ہی تبدیلی ممکن ہے، تبھی تو آج عوام کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو تبدیلی سرکار کے انقلابی اقدامات سے متاثر نہ ہوا ہو۔
موجودہ بحرانی کیفیت میں تبدیلی سرکار کا بڑا امتحان قانونی و آئینی ترمیمی محاذ پر شروع ہو چکا مگر مصدقہ اطلاع ہے کہ حکومتی و اپوزیشن جماعتیں مطلوبہ ترمیم کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی اور مل کر اس تبدیلی کو بھی تاریخ کا حصہ بنا دیں گی۔
تبدیلی سرکار کے عوام کو امیر بنانے اور اب پردیس سے آئی ٹی ماہر سے پورا نظام ڈیجیٹلائز کرنے کے سراب سے دھوکا کھانا لازم ہے لہٰذا تیزی سے تبدیل ہوتے ہوائی فیصلوں اور پالیسیوں سمیت بیورو کریسی میں حالیہ پانچویں اکھاڑ پچھاڑ پر ایک واقعہ یاد آگیا، ایک بستی کے حالات بہت ابتر ہوئے تو غریب مکینوں نے اپنا سردار بدلنے کا فیصلہ کیا۔
نیا سردار چننے کے بعد عوام پُرامید ہوگئے، مزدور مکینوں نے ایک دن موقع پاکر نئے سردار کو آزمانا چاہا، بولے دسمبر کا سخت سرد مہینہ ہے، کئی کئی دن کان کنی اور دیگر مزدوری کے کام میں کپڑے اور موزے گندے اور بدبودار ہو جاتے ہیں، کم از کم کپڑوں اور موزوں کو فوری تبدیل کرکے نئے فراہم کئے جائیں، سردار بولا، آپ کی درخواست منظور، لیکن فیصلہ کل سنایا جائے گا۔
اگلے روز سردار صاحب نے کچہری میں اعلان کیا، نئے موزوں کی فراہمی کی گنجائش تو نہیں تاہم سرکار نے مسئلہ کے حل کے لئے بڑی تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔
آپ کے ہر روز لباس اور موزے آپس میں تبدیل کر دیے جائیں گے، یوں آپ کو نئے موزے بھی مل جائیں گے اور بدبو بھی ختم ہو جائے گی۔