28 دسمبر ، 2019
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتیں قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف ہم آواز بن گئیں۔
گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے بذریعہ سرکولیشن قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس 2019 کی منظوری دی تھی اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد یہ آرڈیننس نافذ العمل ہوگیا ہے۔
اب اس نیب ترمیمی آرڈیننس کے خلاف اپوزیشن جماعتیں ہم آواز بن چکی ہیں اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنوینر و جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما اکرم خان درانی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خود کو اور دوستوں کو بچانے کے لیے نیب آرڈیننس کا سہارا لیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلکٹڈ وزیراعظم نے دوستوں کو خوشخبری دی وہ نیب آرڈیننس سےآزاد ہوں گے، نیب آرڈیننس کا ہماری پارلیمانی جماعتیں مکمل جائزہ لے رہی ہیں، ہم نیب کا ادارہ چاہتے بھی نہیں ہیں، مجھے بھی دو بار نیب میں بلایا گیا، مجھ پر نیب نے کرپشن ثابت کی تو میں سیاست چھوڑ دوں گا، وہ میری بوڑھی ماں سے 1980کا ریکارڈ مانگ رہے ہیں۔
اکرم درانی کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی کا مسئلہ پورے ملک کی زبان پر ہے، بی آر ٹی پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ آیا تھاکہ نیب تحقیقات کرے، نیب چیئرمین بتائیں بلین ٹری سونامی اور مالم جبہ پر بھی اسٹے ہے؟ لہٰذا بلین ٹری اور مالم جبہ معاملے پر کارروائی کی جائے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی وزیراعظم کا نیب آرڈیننس مسترد کر دیا۔
ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی عوام کے لیے بڑی خبر ہے کہ عمران خان اپنی حکومت کے ہر منصوبے کی انکوائری روکنے کے لیے نیب آرڈیننس لا رہے ہیں، سیلیکٹڈ حکومت کا نیب آرڈیننس اپنی کرپٹ حکومت اور دوستوں کو این آر او دینے کی سازش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے جھوٹے الزامات کے باوجود سپریم کورٹ کو خط لکھ کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا۔
مریم اورنگزیب نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگر چوری نہیں کی تو اپنی حکومت کے کرپشن میں ڈوبے منصوبوں کی نیب انکوائری بند کرنے کے لیے آرڈیننس کیوں لا رہے ہیں؟ جنہوں نے چوری نہیں کی ہوتی وہ اپنے آپ کو نواز شریف، شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی طرح خود احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما و صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی کا کہنا ہے کہ نیب آرڈیننس کے ذریعے قانون میں ترامیم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے ان قوانین کو تبدیل کیا جاتا جس سے عوام کو تکلیف ہے لیکن وہ نہیں کیے گئے، ایسا آرڈیننس لایا گیا جس میں سے سرکاری ملازمین کو نکالا گیا ہے، یہ زیادتی ہے۔
یاد رہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا جب کہ ترمیمی آرڈیننس سے ٹیکس اور اسٹاک ایکسچینج سے متعلق معاملات میں بھی نیب کا دائرہ اختیار ختم ہوجائے گا۔
وزارت قانون کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق نیب حکومتی منصوبوں اور اسکیموں میں بے ضابطگی پر پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا، تاہم کسی پبلک آفس ہولڈر نے بے ضابطگی کےنتیجے میں مالی فائدہ اٹھایا تو نیب کارروائی کر سکتا ہے۔
وفاقی و صوبائی ٹیکس اور لیویز کے زیر التوا مقدمات بھی متعقلہ محکموں یا متعلقہ عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا اور اگر تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا مگر سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔
اس کے علاوہ نیب 50 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی کر سکے گا۔