اپنا اپنا نہیں، پاکستان کا سوچو!

فائل فوٹو

سیاست کیوں نہ بدنام ہو جب اپنی کہی ہوئی بات کی سیاستدان کوئی پاسداری ہی نہ کریں۔

 عام زندگی میں ہم جب ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ ’’میرے ساتھ سیاست نہ کرو‘‘ تو اُس کا مطلب عمومی طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ میرے ساتھ جھوٹ، دھوکا، فراڈ نہ کرنا۔

گزشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران وزیراعظم عمران خان اپنی کہی ہوئی باتوں اور وعدوں سے اتنا پھرے کہ اُنہیں یوٹرن خان کا نام دیا جانے لگا جس پر اُنہوں نے کہہ دیا کہ جو یو ٹرن نہ لے وہ دراصل لیڈر ہی نہیں ہوتا۔

خان صاحب کے یو ٹرنز کا سب سے زیادہ مذاق نون لیگ اور پی پی پی کے رہنماؤں نے اُڑایا۔ ان میں سے بھی نون لیگ نے جو اپنے آپ کو نظریاتی اور اصولی سیاست کی چیمپئن قرار دینے لگی تھی اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کو لے کرسویلین بالادستی کی جنگ لڑنے کا عَلم بلند کیے ہوئے تھی، آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے پر ایک ایسا تاریخی یو ٹرن لے لیا کہ دوسروں کے علاوہ خود نون لیگ کے ووٹرز اور سپورٹرز ہکا بکا رہ گئے۔

’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا معاملہ بالکل ہی الٹ ہو گیا۔ ایکسٹینشن کو ناپسندیدہ گرداننے والی نون لیگ نے نہ صرف اس عمل کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا بلکہ اس بات پر بھی راضی ہو گئی کہ مستقبل کے لیے بھی ایکسٹینشن کا رستہ کھلا رکھا جائے۔ 

میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز تو جیسے کہیں گم ہی ہو گئے، بہت سے دوسرے رہنما‘ چھپ بھی گئے اور چپ بھی ہو گئے جبکہ خواجہ آصف، خرم دستگیر وغیرہ جیسے ٹی وی چینلز پر آکر اپنے عمل کا دفاع کرنے کی کوشش میں خود کو ہی تماشا بنا گئے۔ کوئی پوچھے کہ پہلے تو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں بہت آگے چلے گئے تھے، اب جھکنے میں آئے تو لیٹ ہی گئے اور لیٹے بھی ایسے کہ پالشیا لگنے لگے۔ 

پی پی پی کے بڑے چیمپئن چیئرمین بلاول زرداری بھٹو کی بھی جیسے کسی نے ہوا ہی نکال دی ہو۔ بلاول کو کوئی کہے کہ اگر یہی کچھ کرنا ہے تو خاموش ہی رہو، لیکن وہ اپنے ٹویٹس کے ذریعے جو پارلیمنٹ کی جیت کا فلسفہ بیان کر رہے ہیں، وہ کسی کی سمجھ میں آنے والا نہیں۔ میاں نواز شریف کا خط اور بلاول کا ٹویٹس کے ذریعے دیا گیا بیان، دونوں اس بات پر خوش ہیں کہ قانون ایک یا دو دن میں پاس نہیں ہو رہا بلکہ اس میں کچھ زیادہ دن لگیں گے تاکہ پارلیمانی پروسیس پورا ہو جائے۔ 

پتا نہیں یہ کیسی سیاست کر رہے ہیں۔ بھئی اگر مجوزہ بل پر پارلیمنٹ نے آنکھیں بند کرکے مہر ہی لگانی تھی تو پھر یہ کام ایک دن میں کیا جائے یا دس دنوں میں، کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر نہ نون لیگ اور نہ ہی پی پی پی مجوزہ بل کا ایک نکتہ بھی تبدیل کرنے کی جرأت رکھتی ہیں تو پھر یہ ڈرامہ ایک دن میں ختم ہو جاتا تو بہتر نہیںتھا؟ اسے زیادہ دن گھسیٹنے کی کیا ضرورت تھی؟

سویلین بالاستی کی بات کرنے والوں نے جو کیا اُس پر پنجابی کا محاورہ ’’جِتھوں دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی‘‘ یاد آتا ہے۔ سیاستدانوں سے اس مایوسی کے ساتھ ساتھ، یہ بات سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ صورتحال دوسری طرف والوں کے لیے بھی کوئی جیت والی نہیں۔ اگر ہم سوچیں، سمجھیں اور ٹھنڈے دل سے غور کریں تو پتا چلے گا کہ اس کا نقصان دونوں اطراف کو ہو رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کسی ایک کی جیت یا کسی دوسرے کی ہار نہیں بلکہ پاکستان کا نقصان ہے۔ 

اگر سیاستدانوں کو اپنے رویوں اور اپنے ماضی پر غور کرنے کی ضرورت ہے تو اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ایسے رجحانات اور ایسے رویوں سے پاکستان نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ ہم سے ایسی کیا غلطیاں ہوئیں اور ہم ایسی کون سے غلطیاں بار بار کر رہے ہیں کہ ستر سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ہم آگے کے بجائے پیچھے جا رہے ہیں۔

 آج ہماری یہ حالت ہے کہ ترقی اور خوشحالی کیلئے بنگلا دیش جیسے ملک کی طرف دیکھتے ہیں۔ سول اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طاقت کی لڑائی بہت پرانی ہے اور اس لڑائی نے پاکستان کو ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہی کیا ہے۔ آئین پاکستان میں ہر ادارے کا رول متعین ہے جس کے مطابق ہی سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یہی وہ اصول ہے جس کی بنیاد پر پاکستان مضبوط ہو سکتا اور ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے۔ سیاستدانوں کی یہ شکایت درست ہے کہ اُنہیں ہمیشہ کنڑول کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ سب کچھ کیسے ختم ہوگا جب سیاستدان بھی عوام سے ’سیاست‘ ہی کرتے رہیں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :