08 جنوری ، 2020
امریکی خلائی ادارے ناسا نے کہا ہے کہ اس کے سیارچے (سیٹلائٹ) ٹرانزیٹنگ ایگزوپلانٹ سروے سیٹلائٹ یعنی ٹی ای ایس ایس نے ایک نئی دنیا دریافت کی ہے جو کہ قابل رہائش ہو سکتی ہے۔
امریکی ریاست ہوائی کے دارلحکومت ہونولولو میں امریکن ایسٹرونومیکل سوسائٹی کی میٹنگ کے دوران ناسا نے نئی زمین کی دریافت کا اعلان کیا اور بتایا کہ اس کا نام "ٹی او آئی 700 ڈی "رکھا ہے اور یہ ہماری زمین سے قریب ترین یعنی صرف 100 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔
یادرہے کہ زمین کے قریب ترین ستارہ کے نام "پراگزیما سنٹوری " ہے جو کہ ہماری زمین سے صرف چار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔
ناسا کے فلکی طبیعیات(ایسٹروفزکس) ڈویژن کے ڈائریکٹر پال ہیرٹز کا کہنا ہے کہ سیٹ لائٹ "ٹی ای ایس ایس "کو بنانے اور لانچ کرنے کا مقصد ہی ایسے سیاروں کی تلاش کرنا ہے جو کہ اپنے قریب ترین ستاروں کےگرد چکر لگا رہے ہیں۔
ٹی ای ایس سی نے ابتدائی طور پر ستاروں کی غلط درجہ بندی کی جس کے مطابق سیارے اپنی اصل جسامت سے بڑے اور گرم دکھائی دیے۔ لیکن بعد میں ایک ہائی اسکول کے طالبعلم ایلٹن سپینسر سمیت کچھ جونیئر ماہرین فلکیات نے اس غلطی کی نشاندہی کی۔
یونیورسٹی آف شکاگو کی طالبہ امیلی گلبرٹ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے ستاروں کے پیرامیٹرز کو درست کر دیا تو ستاروں کا حجم کم ہو ا اور سب سے بیرونی سیارہ زمین کی جسامت کے برابر اور رہائش کے قابل زون میں موجود تھا۔
اس تحقیق کی بعد ازاں اسپٹزر اسپیس ٹیلی اسکوپ نے بھی تصدیق کر دی۔
یاد رہے کہ اسی طرح کے کچھ سیاروں کی دریافت اس سے قبل کیپلر اسپیس ٹیلی اسکوپ بھی کر چکی ہے لیکن 2018 میں لانچ کی گئی ٹی ای ایس ایس کی جانب یہ پہلی دریافت ہے۔
ٹی ای ایس ایس نے مجموعی طور پر مدار میں تین سیاروں ٹی او آئی c ، b اور d کو دریافت کیا ہے۔ صرف ڈی اس زون میں موجود ہے جو کہ نہ تو زیادہ گرم ہے اور نہ ہی زیادہ ٹھنڈا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں پانی موجود ہو سکتا ہے۔
ٹی او آئی ڈی ہماری زمین سے تقریباً 20 فیصد بڑا ہے اور 37 دن میں اپنے ستارے کے گرد چکر مکمل کرتا ہے اور یہ ہماری زمین کی نسبت 86 فیصد توانائی اپنےسورج سے لیتا ہے۔
اس سیارے کاایک حصہ ہر وقت سورج یعنی ستارے کے سامنے رہتا ہے جبکہ دوسری حصہ ہمیشہ تاریکی میں رہتا ہے ۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ہم زمین پر بسنے والے چاند کے ایک سیاہ حصے کو کبھی نہیں دیکھ سکتے۔
اب متعدد ماہرین فلکیات اس سیارے کا دیگر آلات کے ساتھ مطالعہ کریں گے اور مزید ڈیٹا حاصل کرکے اس کا ناسا کی معلومات سے موازنہ کریں گے۔