12 جنوری ، 2020
برسوں پہلے یہ ان دنوں کی بات ہے جب بے نظیر بھٹو مرحومہ اور نواز شریف کے درمیان گھمسان کا رن جاری تھا، بے نظیر بھٹو نواز شریف کو حقارت سے ’’نوازو‘‘ اور نواز شریف بے نظیر بھٹو کو نفرت سے ’’سیکورٹی رسک‘‘ کہا کرتے۔
بس یوں سمجھ لیں کہ پاکستان پانی پت کے میدان کا سا منظر پیش کر رہا تھا، ہر طرف سیاسی اقدار کی لاشوں کے انبار لگے تھے۔ یہاں تک کہ نواز شریف ہوس اقتدار میں ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ جیسے نعرے سے بھی باز نہ آئے بلکہ بڑھتے بڑھتے ’’تم نے ڈھاکہ دیا ہم نے کابل لیا‘‘ تک پہنچ گئے۔
یہ علیحدہ بات کہ ’’تزویراتی گہرائی‘‘ فیم کابل نے کس بل نکال دیئے۔ لوٹا گیری، ضمیرفروشی، سیاسی خرید و فروخت، ہارس ٹریڈنگ وغیرہ جیسے جمہوری دھندے اپنے عروج پر تھے جب بزرگ رائے ساز، دانشور اور کالم نگار ارشاد حقانی مرحوم و مغفور نے بری طرح متصادم بے نظیر اور نواز شریف کو یہ ملین ڈالر مشورہ دیا کہ دونوں جواں سال قیادتوں کو دانائی و بردباری کا ثبوت دیتے اور ’’ورکنگ ریلیشن شپ‘‘ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں تبدیلی لانی چاہئے۔
"GIVE & TAKE" اور ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے جمہوریت کی بقا اور استحکام کو یقینی بنانا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔میں نے حقانی صاحب کے اس کالم پر بری طرح ری ایکٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ مشورہ عوام کے مفاد میں نہیں۔
عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ یہ مسلسل ایک دوسرے کو زخمی اور BLEED کرتے رہیں اور ایک دوسرے کو اس قدر کمزور کر دیں کہ ان دونوں سے ہی عوام کی جان چھٹ جائے ورنہ خدانخواستہ ان دونوں سیاسی مافیاز میں ’’ورکنگ ریلیشن شپ‘‘ قائم ہو گیا تو عوام گئے کام سے کیونکہ ایسے حالات میں کسی ’’تیسری قوت‘‘ کی آمد کا امکان سو فیصد ختم ہو جائے گا۔
یہ تصویر کا ایک رخ تھا جبکہ آج کل تصویر کے دوسرے رخ سے بھی نقاب سرک رہا ہے آہستہ آہستہ .....آہستہ آہستہ۔ یہ دوسرا رخ کیا ہے؟کچھ دوست پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، ن لیگ وغیرہ میں "GIVE & TAKE" کچھ لو کچھ دو، مک مکا اور ورکنگ ریلیشن وغیرہ کے ’’جمہوری آئیڈیا‘‘ کو پروموٹ کر رہے ہیں۔
دھیمے سروں میں آرمی ترمیمی بل منظوری پر مبارک سلامت بھی جاری ہے۔ اللہ بھلا کرے شیخ رشید کا جس نے ’’ایک پیج‘‘ پر ہونے والی ہنڈیا یہ کہتے ہوئے چوراہا میں پھوڑ دی کہ ___’’اپوزیشن حکومت کا ساتھ نہیں دے رہی تھی، ’’تعویذ‘‘ نے کام دکھایا ہے۔‘‘ میں نے پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ یہ ’’ایک پیج‘‘ والا معاملہ نہیں، کچھ لوگ دراصل تکے اور گولا کبابوں کی طرح ایک سیخ میں پروئے ہوئے ہیں اور سیخ ہلکی آنچ پر رکھی ہے۔
خواجہ آصف بھی یونہی نہیں منمنایا کہ اگر آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے حوالہ سے پرویز رشید نے مخالفت میں ووٹ ڈالا ہے تو وہ جانے اور ’’قیادت‘‘ جانے۔ ووٹ کو عزت دو فیم قیادت جو اتنے رنگ بدلتی ہے جتنے گرگٹ بھی نہیں بدل سکتا۔
کبھی نظریاتی کبھی تجارتی، کبھی باغی کبھی برخوردار۔ پیر پگارہ نے بہت پہلے پہچان لیا تھا کہ تگڑے ہوں تو گریبان پکڑتے ہیں، کمزور ہوں تو سیدھے پائوں پکڑتے بلکہ پائوں پڑتے ہیں۔اصل بات یہ کہ پی ٹی آئی نے اگر پی پی پی ، ن لیگ سے ہی "GIVE & TAKE"کچھ لو کچھ دو، مک مکا اور ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا تھا تو ملکی سیاست میں PTI کی ضرورت کیا تھی؟ اس کا جواز کیا تھا؟نارمل حالات میں "GIVE & TAKE" کچھ لو کچھ دواور ورکنگ ریلیشن شپ واقعی مثبت اور صحت مند رویہ ہے بشرطیکہ فریقین میں 19، 20 کا فرق ہو۔
اٹھارہ 18، 20 کا فرق بھی ہو تو قابل فہم اور قابل قبول ہو گا لیکن قاتل اور مقتول میں کیسا "GIVE & TAKE"؟ کہاں کا ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ اور کس قسم کا ورکنگ ریلیشن شپ؟ چور اور چوکیدار میں انڈر سٹینڈنگ تو صرف واردات کیلئے ہی ممکن ہے۔کیا کبھی کسی نے بھیڑیئے اور بھیڑ کو راک اینڈ رول کرتے دیکھا؟کیا باگھ اور ہرن نے کبھی بال روم ڈانس کا مظاہرہ کیا؟کیا کبھی شارک نے دوسری مچھلیوں کے ساتھ مل کر دھمال ڈالی؟کسی نے راہزن اور راہرو کو ایک پیج پر پایا؟کبھی کسی انسان کو ناگوں اور بچھوئوں کے ساتھ ٹویسٹ کرتے سنا؟
منافقت اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ نہ کبھی ایک پیج پر تھے، نہ ہوں گے اور اگر کبھی یہ انہونی ہو گئی تو سمجھیں یہ عوام کے لئے منحوس ترین گھڑی ہو گی اور پی ٹی آئی مکمل طور پر اپنا جواز کھو بیٹھے گی۔
اس ’’انہونی‘‘ کا صرف ایک ہی مطلب ہو گا کہ PTI بھی کان نمک میں نمک ہو گئی اور یہ ’’تیسری قوت‘‘ بھی گزشتہ دو قوتوں کے رنگ میں رنگی جانے کے بعد رنگیلا یا رنگیلی ہو گئی اور عوام کا رنگ فق۔خیر اور شر کے درمیان سمجھوتہ؟نیکی اور بدی کے درمیان رشتہ؟ٹی ٹیوں اور بیوٹیوں میں تعلق؟آگ اور پانی میں جوڑ؟اقامے اور ’’مقامے‘‘ کا سمبندھ؟تمے کا سیب کے ساتھ پیوند؟سنا ہے بارہ برس بعد تو روڑی کی بھی سنی جاتی ہے جبکہ جمہوری روڑی تو بہتر سال بعد بھی سنے جانے کی منتظر ہے۔ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔