31 دسمبر ، 2019
میں خاموشی سے ان کی بحث سنتا رہا، وہ طرح طرح کے فلسفے بیان کرتے، پھر ان فلسفوں پر بحث کرتے، پھر کچھ لبرلز اور کچھ سیاستدانوں نے پاکستان کے متعلق عجیب و غریب باتیں کیں، کچھ نے فوج پر بھی تنقید کی۔ میں یہ سب خاموشی سے سنتا رہا، وہ سب میری مسلسل خاموشی پر حیران تھے، کہنے لگے’’کچھ تو کہیے ہم تو آپ کو سننے بیٹھے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا کہ شیخ سعدی ؒنے کہا تھا ’’جواب جاہلاں باشد خاموشی‘‘ وہ سب چونک اٹھے۔
’’مگر یہاں تو سب پڑھے لکھے ہیں‘‘ میں نے پھر عرض کیا ’’جی ہاں ! میں اس کا مظاہرہ دیکھ رہا ہوں، آپ سب تعلیم یافتہ ہیں مگر علم و ادب سے عاری ہیں، شاید تہذیب نے آپ کو نہیں چھوا، ورنہ کچھ تو مہذب ہوتے‘‘ خیر پھر ان میں سے ایک نے اعلانیہ انداز میں سب کو چپ کروایا تو خاکسار نے عرض کیا کہ مجھے آج کل کے اساتذہ پر بھی افسوس ہے جو دولت کی آرزو میں ڈگریاں بانٹتے پھرتے ہیں مگر طالبعلموں کو علم و ادب اور تہذیب سے دور رکھتے ہیں۔
اللہ کرے یہ دولت کم از کم تعلیم کی جان تو چھوڑ دے۔ تعلیم کو تجارت بنانے والوں کو دوسرے بزنس عطا ہو جائیں۔ آپ سب لوگوں کے خاموش ہوجانے کا شکریہ۔
بس سال کے آخری دن میری آپ سے ایک ہی درخواست ہے پاکستان سے محبت کرو یا پاکستان کی قدر کرو۔ ایسے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں کی پیروی چھوڑ دو جو تمہیں وطن سے دور کرتے ہیں جو پاک فوج کی خواہ مخواہ مخالفت کرتے ہیں۔نہ تو میں فوجی ہوں، نہ سیاستدان ہوں اور نہ ہی دانشور، ایک ادنیٰ سا پاکستانی ہونے کے ناتے آپ سے درخواست کر رہا ہوں پاکستان کی قدر کرو، پاکستان قدرت کا خاص تحفہ ہے۔ یہ نبی پاکﷺ کی خاص محبت سے وجود میں آیا ہے۔ اس کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے۔ اس کے کئی ایک روحانی پہلو ہیں۔ روحانیت کی دنیا میں یہ ملک ان کا اپنا ہے۔
میری یہ باتیں سن کر ایک نوجوان کھڑا ہوا ’’کون سے روحانی پہلو ہیں؟‘‘ میں نے نوجوان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر عرض کیا جس کو پاکستان کے روحانی پہلوئوں جس کو پتا نہیں، وہ اقبالؒ کا کلام پڑھے، اسے چاہئے کہ وہ قائداعظمؒ کے زندہ خوابوں کو تلاش کرے۔جنگوں میں ہونے والے واقعات پڑھے، صوفی برکت علی لدھیانویؒ کی باتیں سنے۔ آج سال کا آخری دن ہے، صرف ایک واقعہ سنا دیتا ہوں۔
یہ گیارہ ستمبر 1965ء کا دن تھا۔ پاکستانی فوج بہادری سے لڑ رہی تھی۔ ہمارے جوانوں نے چونڈہ میں دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا تھا۔ ضلع سیالکوٹ ہی میں چونڈہ سے تھوڑا دور پھلوار کے محاذ پر پاک فوج کے ٹینک آگے بڑھتے جا رہے تھے کہ دشمن کی توپ کا ایک گولہ اس ٹینک کو آ لگا جس پر میجر ضیاء الدین عباسی تھے۔ وہ شہید ہوگئے۔
جنگ کے خاتمے پر ستارہ ٔ جرأت وصول کرتے ہوئے میجر عباسی شہید کے والد سے صدر ایوب خان نے ان کی خواہش پوچھی۔ انہوں نے عمرہ کرنے کی آرزو ظاہر کی۔ میجر عباسی کے والد کو کچھ دنوں میں عمرے پر روانہ کر دیاگیا۔ پھر ایک روز مدینہ کی فضائوں نے یہ منظر دیکھا، مسجد نبوی کے صحن میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ ان میں بیٹھا ہواہ ایک بزرگ آنکھوں میں آنسو لئے گنبد خضریٰ کو دیکھتا جا رہا تھا۔
اس کا چہرہ آنسوئوں سے تر تھا کہ ایسے میں روضہ رسول ؐ کا خادم خاص آیا، لوگوں سے کہنے لگا۔ ’’تم میں سے کوئی پاکستان سے تعلق رکھتا ہے؟‘‘ آنسوئوں سے تر چہرے والے نے کہا ’’میں پاکستان سے ہوں‘‘ اس نے پھر پوچھا ۔’’آپ واقعی پاکستان سے ہیں؟‘‘ بزرگ شخص بولا۔ ’’جی ہاں ! ‘‘ اس پر روضہ رسول ؐ کے خادم خاص نے پوچھا کہ کیا آپ نے میجر ضیاء الدین عباسی شہید کا نام سنا ہے؟‘‘ بزرگ شخص نے کہا کہ میں میجر ضیاء الدین عباسی کا والد ہوں، مجھ سے زیادہ اس کا نام کس نے سنا ہوگا‘‘
یہ سنتے ہی خادم خاص خوشی اور مسرت سے آگے بڑھ کر میجر عباسی کے والد کو گلے لگا لیا، اس نے نہ صرف گلے لگایا بلکہ بوسے لئے، ہاتھوں کو چوما اور پھر کہا ’’آپ یہیں رکیں، میں کچھ دیر بعد آتا ہوں‘‘ تھوڑی دیر بعد خادم خاص کی دوبارہ آمد ہوئی، وہ میجر عباسی شہید کے والد کو اپنے گھر لے گئے، جہاں عزت و احترام کے ساتھ، اپنے اہل و عیال کے ساتھ کھانا کھلایا، گھر کے تمام افراد بہت عزت سے پیش آئے۔
میجر عباسی شہید کے والد حیران تھے یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے، میں تو انہیں جانتا تک نہیں، میں تو زندگی میں پہلی بار سعودی عرب آیا ہوں، اسی شش و پنج میں خادم خاص روضہ رسولﷺنے ایک بار پھر سے میجر عباسی کے والد کے ہاتھوں کو کے بوسے لینا شروع کر دیے اور اور ساتھ ہی حیرانی دور کرتے ہوئے بولے ’’جب پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہورہی تھی تو گیارہ ستمبر کی رات میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺکو دیکھا کہ وہ اپنے جلیل القدر صحابہ کرامؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، کچھ لمحوں بعد حضرت علی ؓ اپنے ہاتھوں میں ایک لاشہ اٹھائے تشریف لاتے ہیں۔
نبی پاک ؐ کے پوچھنے پر بتایا کہ ہمارے بنائے ہوئے خاص وطن کے لئے شہید ہوا ہے، پھر آپ ؐ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ ’’شہید عباسی اسی طرح بہادری کے ساتھ کفار کے خلاف جنگ لڑے ہیں جیسے آپ میرے ساتھ غزوات میں کفار کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔
پھر رسول پاکﷺسمیت سب نے عباسی شہید کی نماز جنازہ ادا کی اور حکم دیا کہ انہیں جنت البقیع میں دفن کر دیا جائے۔ رات پھر مجھے خواب آیا کہ میں آپ کی آمد کا پوچھوں، آپ اتنے عظیم آدمی کے والد ہیں، آپ کے ہاتھ نہ چوموں تو کیا کروں؟‘‘
صاحبو ! آپ کو شاید یاد نہ ہو کہ گیارہ ستمبر ہی کو ریڈیو پاکستان پر یہ ترانہ چل رہا تھا
چلے جو ہوگے شہادت کا جام پی کر تم
رسول پاک ؐ نے بانہوں میں لے لیا ہوگا
علی ؓ تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
حسین پاکؓ نے ارشاد یہ کیا ہوگا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
اے راہ حق کے شہیدو!