بھاری سیاسی قیمت

فائل فوٹو

ہماری حکومتوں اور سیاستدانوں كے اگر ترقیاتی کاموں اور ترجیحات کا جائزہ لیں تو ان میں زیادہ تر وہ پروجیکٹ نمایاں ہیں جن کو دیکھا جا سکے، یعنی انفراسٹرکچرل کام کیونکہ ان کو دوبارہ ووٹ مانگتے وقت جتایا جا سکتا ہے، چاہے میٹروز ہوں، موٹرویز ہوں یا پھر نئے ایئر پورٹس۔ 

بھلے ایک ووٹر موٹروے کا ٹول ٹیکس بھی نہ دے سکتا ہو، وہ یہ ضرور سوچتا ہے كہ موٹروے نواز شریف نے بنائی تھی، یعنی کچھ نہ کچھ ڈیلیور کیا تھا۔ اِس کی وجہ یا تو یہ ہے كہ ہمارے بیچارے ووٹرز نے چونکہ اتنے سالوں میں ذرا بھی کام ہوتے نہیں دیکھے، چاہے ڈکٹیٹرز ہوں یا سیاسی جمہوری حکومتیں، تو انہیں یہ کام بھی بڑی غنیمت لگتے ہیں۔ دوسری طرف شاید تعلیمی نظام كے بڑھتے انحطاط کی وجہ سے ہمارے ووٹرز کی سوچ اِس حد تک وسیع نہیں ہے، اس لیے انفراسٹرکچرل پروجیکٹس ہماری سیاست کا ایک آزمودہ نسخہ ہیں جس کی بنیاد پرلوگوں سے ووٹ مانگے جا سکتے ہیں۔

جو منصوبے اور کام انفراسٹرکچر سے منسلک نہیں ہوتے، ان کو اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کرنااور ان کا احسان جتانا مشکل ہوتا ہے، وہ کام مکمل ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان کی کامیابی کو اتنی آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ پھر اکثر ایسے کاموں کی کامیابی اتنے کم وقت میں نظر بھی نہیں آتی، اِس لیے تعلیم جیسے حساس شعبے میں بھی حکومتی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسکولوں کی عمارتیں ٹھیک ہو جائیں، نئی بسیں چل جائیں، نئی عمارتیں بن جائیں، کتابوں کا کاغذ اور پرنٹنگ ٹھیک ہو جائے لیکن نصاب میں تبدیلی نہیں کی جائے گی حالانکہ نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور اس کی خامیاں دور کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ 

آپ اندرون و بیرونِ ملک سے ماہرین بلا کر بہت کم عرصے میں تعلیمی نصاب کو ٹھیک کر سکتے ہیں لیکن اِس كے لیے سیاسی نیت (پولیٹکل وِل) ہی موجود نہیں کیونکہ نصاب ٹھیک ہونا ووٹرز کو براہِ راست نظر نہیں آئے گا۔ اچھے نصاب کے تعلیم یافتہ طلبہ بھی سالوں بعد اسکولوں سے باہر آئیں گے۔ پِھر کون حکومت میں ہوگا اور کون ووٹ مانگ رہا ہو گا، اِس کا کس کو کیا پتا؟

یہ وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے پاکستان آج اتنے عرصے بعد بھی ترقی تو کیا بہت سے اہم شعبوں میں تنزلی کا شکار ہے۔ اِس میں سیاسی بےیقینی اور عدم استحکام کا بھی ایک بہت بڑا عنصر شامل ہے جس کو نظر اندازِ نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی سیاسی تاریخ تو ہم سب جانتے ہی ہیں لیکن یہ ہماری قوم اور ہمارے لوگوں كے ساتھ بڑی زیادتی کی بات ہے جس میں کسی حد تک عوام خود بھی قصوروار ہیں۔

اس وقت کا سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان اِس معاملے میں ایک عجیب و غریب جگہ آ کر پھنس گئے ہیں۔ معیشت كے حالات ایسے ہیں كہ اب سڑکیں، ریلوے وغیرہ بنانا اتنا آسان نہیں رہا۔ 

ترقیاتی فنڈز کم سے کم تر ہو رہے ہیں، آئی ایم ایف سے قرض لے کر معیشت ٹھیک کرنے کے بعد ترقیاتی کاموں کے لیے قرض بھی نہیں لیے جا سکتے تو اِس صورت میں پانچ سال بعد کیا کار کردگی دکھائی جائے گی، بالخصوص معاشی مطابقت (اکنامک ایڈجسٹمنٹ) كے دوران جہاں مہنگائی اور غربت مزید بڑھنے کے امکانات واضح ہیں ، نوکریاں ختم ہو رہی ہیں اور سخت مالی پریشانی ہے، وہاں ووٹرز کو کیا کہا جائے اور کیا دکھایا جائے گا؟ ایک حکومتی اسٹرٹیجی احتساب کی تھی جس سے حکومت یہ کہہ سکتی تھی کہ ہم نے چوروں، ڈاکوئوں کو پکڑا لیکن ایک ایک کرکے سب باہر ہیں، اب یہ بھی عوام کو نہیں بتایا جا سکتا اور اپنی مشکلات میں وہ یہ سننے كے لیے تیار بھی نہیں۔

دوسری حکمت ِ عملی جو شاید مشکل بھی ہے وہ یہ كہ حکومت عوام کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے كہ معیشت بہتر ہو رہی ہے، اگرچہ عوام كے انفرادی حالات خراب ہیں تاہم ملک کے مجموعی حالات میں بہتری نہ سہی ٹھہرائو ضرور آ رہا ہے، لیکن یہ تاحال ایک بڑا چیلنج ہے جو شاید اگلے الیکشن تک بھی پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ عوام اپنے ذاتی درد کو سب چیزوں پر ترجیح دیں گے اور پیچیدہ معاشی تصورات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، تحریک انصاف کو یقیناً اِس کی ایک بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ 

لیکن وزیراعظم عمران خان جو ایک کام کر سکتے ہیں كہ وہ اُن تمام کاموں کو پورا کرنا ہے، جو ملک کی فلاح اور مستقبل كے لیے ضروری ہیں اور جن کو پچھلی حکومتیں اس لیے نہیں کرتی تھیں کیونکہ الیکشن میں ان کو ’’بیچا‘‘ نہیں جا سکتا۔ ان میں تعلیم، سروس ڈیلیوری، عوامی سہولتوں اور انصاف کی فراہمی سمیت متعدد کام شامل ہیں۔ یہ وہ کام ہیں جہاں پر شاید اتنے وسائل نہیں چاہئیں لیکن سیاسی نیت اور حکومتی اہلیت کی بہت ضرورت ہے۔

 وزیراعظم کو چاہیے کہ ان سب کو اپنا فوکس بنا لیں اور صرف معاشی ایڈجسٹمنٹ نہیں بلکہ ان سب اقدامات کو بھی لوگوں كے سامنے لائیں اور ہمارے الیکشن میں رائج دکھاوے كے کلچر کو بدلیں۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور اِس کی ایک بھاری قیمت ہے لیکن اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو شاید یہ ملک كے لیے سب سے اچھا کام ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں جہاں وسائل كے کمی ہو، ہار ماننے سے بہتر کوشش کرنا ہے۔ اگر ویسے بھی آپ ایک بھاری سیاسی قیمت ادا کر رہے ہیں تو کم از کم اس سے کچھ مثبت ضرور نکالنا چاہیے تاکہ ملک و قوم کا بھلا ہو سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔