Time 14 جنوری ، 2020
پاکستان

کرنل (ر) انعام الرحیم جاسوس قرار، سپریم کورٹ نے رہائی کا فیصلہ معطل کردیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈوکیٹ کی رہائی کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔ 

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم لاپتہ افراد سے متعلق کیسوں کی پیروی کر رہے تھے اور انہیں 16 دسمبر کو راولپنڈی میں واقع ان کی رہائش گاہ حراست میں لیا گیا تھا۔

2 جنوری 2020 کو لاہور ہائیکورٹ پنڈی بینچ میں سماعت کے دوران وزارت دفاع کے حکام نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کرنل (ر) انعام ان کی حراست میں ہیں جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس مرزا وقاص رؤف نے انعام الرحیم ایڈوکیٹ کی حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

تاہم وفاقی حکومت نے کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈوکیٹ کی رہائی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈوکیٹ کی رہائی کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔ 

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت میں سربمہر رپورٹ جمع کروائی۔ 

اس دوران جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیس کس بناء پر قائم کیا گیا، یہ بتائیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انعام الرحیم کے لیپ ٹاپ کے اندر بہت سا مواد ملا ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کوئی وجہ تو ہوگی گرفتاری کی؟ قانون کے مطابق گرفتاری کی وجوہات بتانا لازم ہے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ چیمبر میں سماعت کرلیں، میں سب بتانے کو تیار ہوں۔

اس دوران جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہم جرم کی نوعیت دیکھنا چاہ رہے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انعام الرحیم کے پاس سیکیورٹی اداروں اور دیگر حساس نوعیت کی معلومات تھیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ ان کے پاس معلومات ہیں جو انہوں نے دشمن سےشیئرکیں؟ آپ کےکہنے کا مطلب ہے کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایک جاسوس ہے؟ 

اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی،کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایک جاسوس ہیں اور ان کے خلاف ابھی تحقیقات چل رہی ہیں، ان کے پیچھے پورا ایک نیٹ ورک ہے جس میں متعدد لوگوں کی گرفتاریاں ہونی ہیں۔

جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ تحقیقات کس مقام پر پہنچ چکی ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں کورٹ مارشل سے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا، جب تحقیقات مکمل ہوں گی تو کرنل ریٹائرڈ انعام کے پاس تمام حقوق ہوں گے۔

اس دوران عدالت نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈوکیٹ کی رہائی کا ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ہائیکورٹ میں داخل کردہ ریکارڈ طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم لاپتہ افراد سے متعلق کیسوں کی پیروی کر رہے تھے اور انہیں 16 دسمبر کو راولپنڈی میں واقع ان کی رہائشگاہ سے اغوا کیا گیا تھا۔

انعام الرحیم کے صاحبزادے حسنین انعام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ 16 دسمبر کی شب ساڑھے 12 بجے عسکری 14 میں واقع ان کی گھر کی گھنٹی بجی اور جب انہوں نے دروازہ کھولا تو سیاہ لباس میں 8 سے 10 مسلح افراد ان کے گھر میں گھس آئے۔

حسنین انعام کے مطابق یہ افراد والد کو اسلحے کے زور پر زبردستی اپنے ہمراہ گاڑی میں ڈال کر ساتھ لے گئے اور انہیں دھمکی بھی دی کہ اگر کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی گمشدگی کو رپورٹ کیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

بعد ازاں 2 جنوری 2020 کو وزارت دفاع کے حکام نے راولپنڈی سے اغوا ہونے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو اپنی تحویل میں رکھنے کا اعتراف کر لیا تھا۔

لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں دوران سماعت وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ہمارے پاس ہیں، انعام الرحیم سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

مزید خبریں :