14 جنوری ، 2020
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ امور بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر آنے والی تصویر سے لگتا ہے کہ نواز شریف کی طبیعت اب بہتر ہے، اگر وہ واپس آتے ہیں تو ان سے جیل میں دیگر قیدیوں جیسا سلوک ہوگا۔
اسلام آباد میں جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر آنے والی تصویر سے پتہ چلتا ہے کہ نوازشریف کی صحت بہتر ہوگئی ہے اگر ایسا ہے تو انہیں واپس آکر جیل میں باقی سزا کاٹنی چاہیے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی بیماری ان کی عمر اور لائف اسٹائل کے مطابق ہے، اگر وہ واپس آتے ہیں تو ان سے جیل میں باقی قیدیوں جیسا سلوک ہوگا اور ان سے امتیازی سلوک نہیں روا رکھا جائے گا۔
معاون خصوصی برائے احتساب کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کیس میں کچھ اہم گرفتاریاں ہوئی ہیں، شہباز شریف پر بہت سخت الزامات ہیں، انہیں اور سلمان شہباز کو بہرحال ان باتوں کا جواب دینا ہوگا۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس کے بڑے کردار بھی پلی بارگین کی طرف آرہے ہیں اور وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں9،10 ارب روپے کی خاصی بڑی رقم کی پلی بارگین ہوئی ہے اور یہ پیسے عدالتوں کے ذریعے قومی خزانے میں جمع ہوچکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں 16 سے زائد ریفرنسز ابھی فائل ہونے ہیں، پیپلزپارٹی ایک پرانی جماعت ہے، ان کے چند اشخاص کے خلاف کیسز ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیراعظم نوازشریف کی ایک تصویر منظر عام پر آئی تھی جس میں وہ شہباز شریف، اسحاق ڈار اور دیگر عزیزوں کے ہمراہ لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں موجود ہیں۔
21 اکتوبر 2019کو قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور کی حراست میں موجود سابق وزیراعظم نواز شریف کو خرابی صحت کی بناء پر اسپتال منتقل کیا گیا جس کے بعد انہیں طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہا کیا گیا۔
عدالت میں بیان حلفی جمع کرانے کے بعد نواز شریف کو 4 ہفتوں کیلئے بیرون ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت ملی تھی جس کے بعد نواز شریف 19 نومبر کو لندن روانہ ہوگئے تھے اور اب تک وہیں موجود ہیں۔
لندن کے ریسٹورنٹ میں تصویر کے سامنے آنے کے بعد سے نواز شریف پر سخت تنقید کی جارہی ہے جب کہ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے بھی نوازشریف کے ذاتی معالج کو فون کرکے صورتحال سے آگاہی حاصل کی ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے بھی نواز شریف کو ایک خط لکھا گیا ہے جس میں ان سے 48 گھنٹوں میں میڈیکل رپورٹس طلب کی گئی ہیں۔