پنجاب کے ساتھ ظلم

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار—فوٹو فائل

پاکستان میں اکثر وبیشتر کتابیں اور مضامین اِس حوالے سے لکھے گئے کہ پنجاب نے باقی تین صوبوں کے ساتھ ظلم کیا۔ کبھی کسی نے پنجاب سے اِس کا درد نہیں پوچھا، کسی نے پنجاب کے دکھ بیان بھی نہیں کیے۔

پاکستان سمیت افغانستان کی غذائی ضروریات پورا کرنے والے صوبے کے ساتھ دو مرتبہ بہت بڑا ظلم ہوا۔

پنجاب کےساتھ پہلا ظلم 1947میں ہوا جب پورے برصغیر کے تمام صوبے اپنی اپنی جگہ پر رہے مگر سرسبز کھلیانوں کے صوبے پنجاب کو تقسیم کر دیا گیا۔ پنجاب کو تقسیم کے کئی دکھ سہنا پڑے۔

پہلا دکھ کہ صوبہ تقسیم ہو گیا، دوسرا دکھ، پنجابیوں کا قتلِ عام ہوا، پنجاب کے دریا خون سے سُرخ ہوئے، تیسرا دکھ، پنجابی زبان کا زوال شروع ہو گیا، چوتھا دکھ، پنجاب کی ثقافت اور رہتل تیزی سے تبدیل ہونے لگی، ہمارے پنجاب سے تو تہبند، لاچا اور پگڑی غائب ہی ہو گئے۔

پانچ دریاؤں کے صوبے کا پانچواں دکھ اس پر ہونے والا سیاسی و انتظامی ظلم ہے۔ بھارتی پنجاب کو وہاں کی حکومت نے تین ٹکڑوں میں بانٹ دیا مگر آج بھی بھارتی پنجاب پورے بھارت کی غذائی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ ہمارے پنجاب میں حکومتیں سازشوں کا شکار رہیں۔

ہمیں پہلے 30 سال یہی سنایا جاتا رہا کہ پنجاب وسائل پر قابض ہے، پنجاب ظلم کر گیا، پنجاب زیادتی کر گیا مگر درحقیقت ان 30 برسوں میں پنجاب کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی، سونا اگلنے والے صوبے پر کسی نے توجہ ہی نہ دی۔

یہاں پانی کا جو نظام اس وقت تھا وہی آج ہے بلکہ آج کا نظامِ آب پاشی تباہ حال ہے، ہم نے اپنے نہری نظام کو برباد کیا۔ پنجاب کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سے نہریں گزرتی ہیں مگر وہاں کے لوگ ایک بوند پانی استعمال نہیں کر سکتے۔

آدھے سے زیادہ پنجاب بارانی ہے، پانی کی اس کمی کو چھوٹے ڈیم بنا کر پورا کیا جا سکتا تھا لیکن پنجاب پر حکومت کرنے والوں کو کون سمجھاتا کہ اس صوبے کے ندی نالوں کا پانی ضائع ہو جاتا ہے، اسے ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

پنجاب میں زراعت کو جدید بنانے کیلئے کئی ایک ریسرچ سینٹرز بنانے کی ضرورت تھی مگر افسوس ایسا بھی نہ ہو سکا۔ خاص طور پر نئے اور طاقتور بیجوں پر کوئی کام نہ ہو سکا۔ وقت کی رفتار سے ہماری زراعت کو پیچھے رکھا گیا، اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ پیداوار کم ہونا شروع ہو گئی۔

آج سے  50 سال پہلے پنجاب کے بہت سے علاقوں میں کپاس کاشت ہوتی تھی، رفتہ رفتہ کپاس کا علاقہ بھی کم ہوگیا۔ پچاس برس پہلے تو پنجاب کے ہر گائوں میں عورتیں چرخہ کاتتی تھیں۔

اس کا مطلب ہے کہ ہر گاؤں میں پھٹی ہوتی تھی، پچاس برس پہلے تک باجرہ اور مکئی کی کاشت بھی بہت تھی، نصف صدی پہلے تک پنجاب کے اکثر باسیوں نے دیسی گھی کے علاوہ کسی اور گھی کا نام نہیں سنا تھا، تازہ مکھن اور دیسی گھی خوراک کا حصہ تھے، آج ایسا نہیں ہے۔

سرسوں کے کھیت پورے پنجاب کو بسنتی بنا دیتے تھے مگر آج ایسا نہیں۔ گوشت اور اناج مہنگا نہیں تھا، ہمارے ہاں کماد کاشت ہوتا تھا، گڑ شکر عام تھے۔ آج پنجاب کے باسیوں کو مردان، چارسدہ اور صوابی سے گڑ آتا ہے۔ ہمارا بہترین چاول رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھوتا گیا۔

پنجاب کی زمینیں اپنے باسیوں کا پیٹ بھرنے سے قاصر نظر آنے لگیں تو وسطی پنجاب کے لوگوں نے یورپ اور امریکہ کا رُخ کیا، ہر گھر سے کوئی نہ کوئی باہر چلا گیا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب سے لوگ مشرق وسطیٰ مزدوری کیلئے چلے گئے۔

یہ دکھوں کی کہانی ہے، کون پردیس کا رخ کرتا ہے، اپنی دھرتی کو کون چھوڑتا ہے مگر خاندانوں کو پالنے کیلئے لوگوں کو ایسا کرنا پڑا، ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک مزدوریاں کرنا پڑیں۔

اردو ادب اور صحافت کی خدمت بھی پنجابیوں نے زیادہ کی، وہ خود ظلم کا شکار بھی رہے اور ظالموں میں شمار بھی ہوتے رہے۔ آمدنی کی کمی نے ان کے میلے بھی ختم کر دیئے۔

پنجاب پر دوسرا بڑا ظلم پچھلے چالیس برس سے ہو رہا ہے، ایک زرعی صوبے کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے جن کا زراعت سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی دلچسپی۔

پچھلے چالیس برسوں میں پنجاب پر زیادہ تر شریف خاندان کی حکومت رہی، انہوں نے زمینداروں کو تنگ کرنے کا ہر حربہ آزمایا۔ کچھ عرصہ گجرات کے چوہدری بھی پنجاب کے حکمران رہے مگر وہ خود کو زمیندار نہیں بلکہ کاروباری کہلوانا پسند کرتے ہیں۔

وہ بھی شوگر ملوں کے مالکان میں سے ہیں، ان کی توجہ بھی صنعتوں پر رہی۔ عارف نکئی اور منظور وٹو تو بہت تھوڑے عرصے کیلئے حکمران رہے، منظور وٹو نے پھر بھی زرعی طبقے کیلئے کچھ کام کیا۔

اب پنجاب کی تقدیر تونسہ کے بزدار کے حوالے کر دی گئی ہے، پنجاب پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے جہاں کبھی رنجیت سنگھ کا راج تھا اب وہاں بزدار کا بسیرا ہے۔

50 سال پہلے پنجاب کا زمیندار کاروبار سے دور بھاگتا تھا، دکانداری نہیں کرتا تھا، آج ہر زمیندار نے کوئی نہ کوئی کاروبار کھول رکھا ہے یا نوکری کر رہا ہے اور خوشحالی سے کہیں دور ہے۔

چالیس برسوں نے پنجاب کےساتھ وہ ظلم کیا ہے جس کا ازالہ صدیوں میں ہوگا، کاشتکار پس کر رہ گیا ہے جو سبزیاں ہم اپنے مویشیوں کو کھلایا کرتے تھے اب انسانوں کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں، چالیس برس کے دکھوں کیلئے مجھے ایک اور قسط لکھنا پڑے گی۔ فی الحال اقبال ؒکا شعر یاد آ رہا ہے کہ

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

مزید خبریں :