چین کا شکریہ

فائل فوٹو

اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ میں زیرِ التوا تنازعات میں سب سے پرانا مسئلہ کشمیر ہے جو 1948ء کے آغاز پر جنگ کے بعد سیاسی حل کی طرف مڑ گیا۔

واضح رہے مسئلہ کشمیر، بھارت اور پاکستان دونوں کے ایٹمی طاقت بننے سے اقوامِ متحدہ میں زیرِ التوا مسائل میں سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ بھی بن چکا ہے۔ 

تشویش یہ نہیں کہ دونوں بڑے فریق ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں اور ان کی دشمنی اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی ہے بلکہ کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے اور اسے آزاد کرانے کیلئے تین بڑی جنگیں 1948ء، 1965ء، 1971ءاسکے علاوہ کارگل اور گزشتہ سال میں محدود فضائی جنگ ہو چکی ہے۔

اسی پسِ منظر اور آئندہ کی صورتحال پر سابق امریکی صدر کلنٹن نے ’’مسئلہ کشمیر ‘‘ کو عالمی سیاست کا فلیشنگ پوائنٹ یعنی کسی بڑی جنگ کا واضح اشارہ قرار دیا تھا۔

اسلام آباد اور نئی دہلی کے تمام سفارتی حلقے بھی گزشتہ سال 14فروری کو ہوئے پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر خودکش حملے کا الزام پاکستان پر دھرتے ہوئے موجود مودی حکومت نے اقتدار کی دوسری بازی جیتنے اور بے قابو کشمیر کی تحریک کا زور توڑنے کیلئے جب پاکستان کے خلاف محدود فضائی جنگ کی مہم جوئی کرکے منہ کی کھائی تو جنگی جنون میں مبتلا ہندو بھارت کی بنیاد پرست حکومت بڑے صدمے سے دوچار ہو کر، مکمل آمادۂ جنگ تو ہوئی لیکن 27فروری کو فضائی جنگ میں ہونے والی ہزیمت اور نفسیاتی خوف نے اسے پاکستان پر مزید حملے سے باز رکھا۔

جبکہ پاکستان افواج کا کنٹرول لائن کے اس پار پر حملے کے فوری جواب سے اسکا جنگی مورال زمین سے جا لگا۔ اسکے مقابل پاکستان نے کشمیر پر جو سفارتی محاذ کھولا اس میں بھی مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی نہ بننے دینے کی تگ و دو میں بھارت کو بڑی سفارتی شکست ہوئی۔

امر واقعہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بے قابو تحریک میں برہان مظفر وانی کی شہادت سے لیکر اب تک جو کچھ متنازع کشمیر کے حوالے سے ہوا، اس نے ایک بار پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ بھارت کا اپنی دس لاکھ فوج کی تعیناتی کے ساتھ جموں و کشمیر پر قبضہ غاصبانہ ہے جسے برقرار رکھنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں مقامی زوردار اور تحریک مسلسل نے اس میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے کہ کشمیر ایک بڑے اور شدت سے حل طلب عالمی مسئلے کے طور پر برقرار ہے ۔

تازہ ترین سفارتی معرکہ سیکورٹی کونسل میں آئرن برادر چین کی تحریک پر گزشتہ سال کے سیکورٹی کونسل کے فالو اَپ میں ایک بار پھر سیکورٹی کونسل کے جائزہ اجلاس میں اتفاق رائے سے تمام اراکین کا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار ہے جس میں چین نے سیکورٹی کونسل، پوری دنیا اور بھارت پر دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ چین کی مسئلہ کشمیر پر پوزیشن برقرار اور مستقل نوعیت کی ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چارٹر کے مطابق حل ہو۔

یہ عمران حکومت کی سرگرمی اور چین کے نتیجہ خیز تعاون ہی کا نتیجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کئی عشروں کے بعد سلامتی کونسل میں زیر غور آیا اور اب تفصیلی جائزے کے بعد مکمل طور پر بین الاقوامی حیثیت ہی اختیار نہیں کر گیا بلکہ اب تو روس نے بھی اسے شملہ معاہدے اور اعلانِ لاہور کی پیشرفت کی سپرٹ میں حل کرنے پر زور دیا ہے۔

جبکہ اس سے قبل برادر ترکی کے صدر جناب طیب اردوان اور ملائیشیا کے صدر جناب مہاتیر محمد مسئلہ کشمیر پر پہلے ہی مکمل حقیقت پسندانہ اور جرأتمندانہ پوزیشن لیتے ہوئے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ پر واضح کر چکے ہیں کہ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا اور یہ تنازع اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔

ہر دو رہنماؤں نے اس جرات مندانہ موقف پر بھارت کے اس ردعمل کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ بھارت نے ترکی اور ملائیشیا پر دباؤ ڈالنے اور انہیں بڑے مالی خسارے سے دوچار کرنے کیلئے ان سے تجارتی لین دین اور سرمایہ کاری کے منصوبے ختم کر دیے جس سے دونوں کو بھاری بھر نقصان کا احتمال ہے، لیکن دنیا کی مکارانہ ریت کے برعکس انہوں نے اپنے قومی مفاد پر اقوام متحدہ کے چارٹر کو اہمیت اور بڑی قربانی دے کر واضح کیا اور قومی مفادات کو فراخدلی سے ایک جانب کرکے بھارتی بلیک میلنگ کو ناکام بنا دیا۔

اب سلامتی کونسل کے جائزہ اجلاس جس کو رکوانے کیلئے بھارت نے پیر پڑنے کے سے انداز میں منتیں کیں، میں تو مسئلہ کشمیر بھرپور انداز میں بین الاقوامی مسئلہ بن کر دنیا کے سامنے واضح ہو گیا ہے، اس پر ہم چین، ترکی اور ملائیشیا کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں وہ کم ہے۔

بلاشبہ چین نے اپنی گہری دوستی ہی نہیں بلکہ اپنے حقیقی اور مسلسل بڑھتے عالمی قد کاٹھ کے مطابق جو نتیجہ خیز سفارتی مدد کی ہے اسکا تقاضا ہے کہ تینوں ممالک میں اظہارِ تشکر کیلئے پاکستانی عوام کے منتخب نمائندوں کے وفود بھیجے جائیں جس میں اپوزشن کی نمائندگی بھی لازم ہو۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اب جبکہ مسئلہ کشمیر پر پوری دنیا کو موجودہ صورت میں نہ صرف متوجہ کرنے بلکہ اس توجہ کو نتیجہ خیز بنانے کی سازگار صورتحال بنانے پر عظیم کردار ادا کرنیوالے عظیم دوستوں نے جو کردار ادا کیا ہے اسکے بیحد موثر نتائج نکلے ہیں، ایسے میں ان دوستوں جو اپنی مجبوریوں کی مصلحتوں میں ہمیں مایوس کر چکے تھے، کیلئے بھی راہ ہموار ہو گئی ہے کہ وہ آگے بڑھیں۔

عمران حکومت کی خارجہ امور کے حوالے سے یہ ہی بڑی کامیابی اس کی داخلی کمزوریوں اور مجبوریوں کو متوازن کر رہی ہے بلکہ اس سے داخلی مالی مسائل حل ہونے میں بھی مدد مل رہی ہے۔ یوں بھی جب کشمیریوں کی بیش بہا قربانیوں نے حالات سازگار بنانے کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے ہم پاکستانی خصوصاً حکومت اس سلسلے میں نئے سفارتی اہداف بنا کر جارحانہ درجے کی سفارتی سرگرمیوں کو ڈیزائن کرکے سفارتی عمل کو تیز تر کریں۔ وما علینا الا البلاغ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔