20 جنوری ، 2020
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رکن قومی اسمبلی مونس الہٰی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں ایسا لگا کہ شاید وہ مجھے پسند نہیں کرتے، اس لیے کابینہ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کے بیٹے مونس الہٰی کا کہنا تھا کہ ق لیگ، تحریک انصاف سے اتحاد تب تک ختم نہیں کرے گی جب تک پی ٹی آئی والے ق لیگ کو دھکے مار کر الگ نہ کریں۔
انہوں نے بتایا کہ عمران خان سے یکم جنوری کو ملاقات ہوئی، ملاقات میں ایسا لگا کہ شاید وہ مجھے پسند نہیں کرتے، اس لیے کابینہ میں شامل نہیں ہونا چاہتا،عمران خان سے ملاقات میں کہہ دیا تھا کہ میں وفاقی وزارت میں دلچپسی نہیں رکھتا، تُک نہیں بنتی کہ ایسی ٹیم کا رکن بن جاؤں جس کا لیڈر مجھ سے مطمئن نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آٹے کے بحران پر بات نہیں کرنا چاہتا، آج ایک بیان دیا تو پی ٹی آئی والوں نے کہا کہ ابھی تو صلح ہوئی ہے، پی ٹی آئی سے تحریری معاہدہ ہے، میٹنگ اس پر عمل درآمد کے لیے ہوئی، ان سے معاہدہ ہوا تھا کہ 2 صوبائی اور 2 وفاق میں وزارتیں ملیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے پنجاب اور وفاق میں ایک ایک وزارت دی، پنجاب میں ہمیں ایک اور وزارت دی جانی تھی لیکن ہمارے ایک وزیر کو پریشان کیا گیا جس پر انہوں نے استعفیٰ دے دیا، یہ ہمارے وزیر کو منانے آئے اور پنجاب میں دوسری وزارت بھی دے دی لیکن وفاق میں ہمیں ایک اور وزارت نہیں دی۔
مونس الہٰی کا کہنا ہے کہ ہم آخر تک کوشش کریں گے کہ یہ معاملات درست کرلیں، پہلے دن سے کہا کہ پنجاب سے متعلق جو بھی فیصلہ کرنا ہو کریں لیکن ہم سے مشاورت کرلیں، انہوں نے لوکل گورنمنٹ بل پاس کرایا، میری نظر میں اس سے زیادہ احمقانہ فیصلہ نہیں جویہ پنجاب میں بلدیاتی سسٹم لانا چاہ رہے ہیں۔
ق لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی سے گئے مخالفین عمران خان کو ہمارے خلاف بریف کرتے ہیں، ہمارے پاس پیغام آیا تھاکہ بلدیاتی بل میں رکاوٹ نہیں کرنی ورنہ سنگین معاملات ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے سے قائم یونین کونسل کے سسٹم کو بہتر کرنا چاہیے، باہر کے ملک کا سسٹم نہیں چل سکتا، نئے سسٹم پرپنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پی ٹی آئی کے ساتھ الیکشن لڑنا مشکل ہوگا۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے مطالبات کی عدم منظوری پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور حکومتی وفد سے ہونے والی ملاقات میں ق لیگ نے مطالبات پر عمل درآمد کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی۔