16 نومبر ، 2019
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی سرکردہ اتحادی جماعت مسلم لیگ ق عمران خان حکومت اور اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور سمجھتی ہے کہ حالات بد سے بد تر ہو چکے ہیں۔
چوہدری شجاعت حسین کا تازہ ترین بیان ق لیگی رہنماؤں کی پریشانی کی عکاسی کرتا ہے کہ حالات ایسے ہی چلتے رہے تو 3؍ سے 6؍ ماہ بعد کوئی بھی وزیراعظم بننے کے لیے آمادہ نہیں ہوگا۔
گجرات سے تعلق رکھنے والے ق لیگ کے اہم رہنما کے مطابق ملک کا مجموعی منظر نامہ پریشان کن ہو چکا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ حالات ایسے نہیں چل سکتے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ق لیگ نے کئی مرتبہ مشورہ دیا لیکن پی ٹی آئی والوں نے اس پر دھیان نہیں دیا کہ معیشت اور طرز حکمرانی پر توجہ دیں نہ احتساب جیسے متنازع معاملے پر ق لیگ کے رہنما نے اس تاثر کی نفی کی کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے حالیہ بیانات سوچ کی کہیں اور ممکنہ تبدیلی کی وجہ سے سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی رہنما غیر جانبدار ہیں اور ق لیگ کے ایسے بیانات اسلئے سامنے آئے ہیں کیونکہ پارٹی کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے۔
ق لیگ کے رہنما نے کہا کہ حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوگئی ہے اس لئے کوئی بھی مطمئن نہیں۔
انہوں نے 2018ء کے الیکشن کے بعد عمران خان کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین نے خان کو مشورہ دیا تھا کہ معیشت پر توجہ دیں تاکہ ملک کی مالی صحت کو بہتر بنایا جاسکے اور اس کے بعد ہی کرپٹ افراد کیخلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔
ذریعے نے کہا، لیکن عمران خان نے کچھ سیاست دانوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں کرپٹ قرار دیا اور عزم کا اظہار کیا کہ وہ انہیں چھوڑیں گے نہیں۔
ق لیگ کے رہنما نے کہا کہ رواں سال پیش کیے جانے والے بجٹ کے موقع پر چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے عمران خان سے آخری مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔
ایک سوال، کہ کیا ق لیگ کی قیادت نے حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے اپنے تحفظات کے اظہار کیلئے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کی درخواست کی ہے یا نہیں، کے جواب میں ق لیگی رہنما نے کہا کہ جب یہ لوگ ہماری سننے کیلئے تیار نہیں تو ہم ان سے ملاقات کی درخواست کیوں کریں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہم اپنے تحفظات کا اظہار پی ٹی آئی کی دوسری سطح کی قیادت کے ساتھ کرتے رہے ہیں جو خود بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں لیکن یہ لوگ وزیراعظم کے سامنے گونگے بن جاتے ہیں۔
ذریعے نے کہا کہ کاروبار بند ہو چکے ہیں، تاجر چیخ و پکار کر رہے ہیں جبکہ کرپشن میں اضافہ ہو گیا ہے۔
وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت معمولی اکثریت کی حامل ہیں جس کے باعث اتحادی جماعتیں بالخصوص ق لیگ کے ارکان حکومت کی بقاء کیلئے بیحد ضروری ہیں۔
ماضی میں ایسی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان ق لیگ کے کابینہ میں حصے کے حوالے سے اختلافات پیدا ہو چکے ہیں تاہم، حال ہی میں گجرات کے چوہدریوں کا حالیہ طرز عمل پی ٹی آئی والوں کے لیے پہلے کے مقابلے میں زیادہ پریشان کن ہو چکا ہے۔
چند روز قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں چوہدری شجاعت حسین نے کہا تھا کہ بڑھتی مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے کوئی بھی وزیراعظم بننے کو آمادہ نہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کو کچل دیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ڈیڈ لائن تین سے چھ ماہ تک بڑھائی جا سکتی ہے کیونکہ حالات ایسے ہو چکے ہیں کوئی بھی ملک کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ قبول کرنے کو تیار نہ ہوگا۔
نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے حوالے سے بھی ق لیگ والے پی ٹی آئی حکومت کے بانڈ کی شرط کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے کہ اسے جمع کرانے کے بعد ہی ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے سخت بیمار شخص کو علاج کے لیے جانے دیا جائے۔
اس کے علاوہ، ایک ٹی وی انٹرویو میں چوہدری پرویز الٰہی نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ اعتماد سازی کا ماحول بنانے اور معیشت بہتر کرنے پر توجہ مرکوز رکھے۔
پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کی جانب نرمی کا مظاہرہ کرے اور ساتھ ہی احتساب کی موجودہ پالیسی پر نظرثانی کرے، حکومت کو چاہئے کہ وہ سیاسی نوعیت کے کیسز پر کارروائی سے گریز کرے۔
حکومت کے قریب ایک پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ یہ تمام باتیں غلط ہیں، جب ہمیں حکومت ملی تو ملک خراب حالت میں تھا، ہم نے حالات درست کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے، ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، اب ان اقدامات کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، آئی ایم ایف سے قرض کے حصول میں کامیابی حاصل کی اور مالی خسارہ کم کیا، کشمیر پر پاکستان کے نقطہ نظر سے دنیا کو آگاہ کیا، یہ اور یہ مسئلہ نئے سرے سے بہترین انداز میں اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کے حوالے سے عمران خان کے ویژن کو آگے بڑھا رہےہیں اور عوام کو اس سے آگاہ بھی کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرتارپور راہداری کا قیام تاریخی اقدام ہے جس سے مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔