22 جنوری ، 2020
ایک کالم میں چین میں مقیم پاکستانی جو قید کی مدت پوری کر چکے ہیں کا مسئلہ بیان کیا۔ گزشتہ ہفتے چینی سفیر نے اپنے گھر دعوت دے کر مجھے بتایا کہ اُن کی کانگریس مارچ میں اِس پر قانون سازی کرنے جا رہی ہے۔ اُمید ہے کہ اب اِس انسانی نوعیت کے مسئلے پر مزید کوئی غیرضروری تاخیر دونوں ممالک کی جانب سے نہیں کی جائے گی۔
گفتگو اِس بار یہ ہے کہ 2013کے عام انتخابات کے انعقاد کے وقت تک بجلی اور معیشت کے المیہ حالات اپنے عروج پر پہنچ گئے تھے۔ اُس وقت کی معاشی ٹیم کے انچارج حفیظ شیخ اِن معاملات پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے تھے۔ اِن حالات میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت برسرِ اقتدار آئی اور اسحاق ڈار کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی کہ وطنِ عزیز کی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ آئی ایم ایف ایک آپشن کے طور پر سامنے تھا۔ میٹنگ روم میں آئی ایم ایف کی ٹیم اور اسحاق ڈار آمنے سامنے بیٹھے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم ماضی قریب کی دونوں حکومتوں سے معاملات طے کرتی چلی آ رہی تھی چنانچہ اپنے اِس زعم میں اسحاق ڈار سے بھی مخاطب ہوئی اور اپنا بنیادی مطالبہ پیش کر دیا کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت کو کم کر دیا جائے۔ کرنسی کی قیمت کو کم کر دیا جائے مگر اِس سے کیا فائدہ پاکستانی معیشت کو ہوگا؟ یہ سوال اسحاق ڈار نے اُن سے کر ڈالا اور ساتھ ہی ہاتھ ملاتے ہوئے اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم ہکا بکا رہ گئی کہ یہ کیا ہوا مگر جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ پاکستان نے روپے کی قیمت گرانے کے حوالے سے ٹکا سا جواب دے دیا تھا۔ آئی ایم ایف اور پاکستان پھر بھی ایک معاہدے پر پہنچ گئے مگر اسحاق ڈار کی اس شرط کے ساتھ کہ روپے کی قیمت کسی صورت کم نہیں کی جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روپے کی قیمت کم ہونے سے کیا ہوتا ہے۔
ویسے تو گزشتہ کم و بیش ڈیڑھ برس سے جو حالات جاری ہیں۔ اُس کی وجہ سے ایک عام پاکستانی اچھی طرح جان چکا ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ روپے کی اِس قدر اور معیشت کو مصنوعی حالات میں برقرار نہیں رکھا جا سکتا جس کا الزام لگایا جاتا ہے کیونکہ اکنامکس کی دنیا میں مصنوعی معیشت نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔
کسی معاشی کیفیت کو ہفتے، دو ہفتے تو مصنوعی طور پر سہارا دیا جا سکتا ہے لیکن اِس سے زیادہ وقت کے لئے یہ ہرگز ممکن نہیں۔ اور اپنے پورے دورِ اقتدار میں مسلم لیگ (ن) نے معیشت کو اُس کی اصل حالت میں ہی رکھا اور پیش کیا ۔ اسحاق ڈار کو اسٹاک مارکیٹ 19000 انڈیکس پوائنٹ کی سطح پر ملی تھی۔
تمام اسٹاک مارکیٹوں کو یکجا کرکے پاکستان اسٹاک بنائے گئے۔ 19000کا ہندسہ بڑھتے بڑھتے 54000تک پہنچ گیا۔ شرح ترقی تقریباً 6فیصد تک پہنچ گئی مگر پھر وہ کچھ ہونے لگا کہ جو نہ ہوتا تو ملک کے لئے بہتر تھا۔ ملکی ترقی نے واپسی کی راہ اختیار کر لی۔ جو شرح ترقی 6فیصد تک پہنچ گئی تھی اور 7فیصد کی توقع کی جا رہی تھی وہاں پر اب یہ حالت ہے کہ شرح ترقی 3فیصد سے کچھ زیادہ رہ گئی اور ستم بالائے ستم کے اگلے سال اس سے بھی گر کر 2فیصد سے کچھ زیادہ رہنے کی توقع ہے۔
اسی دوران جب روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور پاکستانی کرنسی گری تو ایکسپورٹ تو کیا بڑھتی مہنگائی بہت رفتار سے بڑھنے لگی جو تھم ہی نہیں رہی ہے۔ آٹے اور گیس کا بحران پوری قوت سے ٹکرا رہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ بھی پوری طاقت سے گرمیوں میں اپنے جلوے دکھائے گی مگر حکومتی صفوں سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ جب یہ سطور تحریر کر رہا تھا تو خیال آیا کہ اِس کی مخالفت میں مقدمات کا ذکر ہوگا کہ فلاں مقدمہ اور فلاں مقدمہ۔
اسحاق ڈار کو ہی ٹیسٹ کیس بنا لیتے ہیں۔ مشرف کا دور مسلم لیگ (ن) کے لئے کتنا پُر آشوب تھا، دلائل کی ضرورت نہیں۔ اُس دور کو کسوٹی بنا لو کہ مقدمات کی کیا حقیقت ہے۔ 2000میں اسحاق ڈار کے خلاف نیب نے انکوائری کا آغاز کیا۔ جس افسر کو تفتیش سونپی گئی اُس نے اپنی تفتیش کے اختتام پر قرار دیا کہ کیس میں کچھ نہیں رکھا لہٰذا بند کر دیا جائے۔
10اپریل 2001کو یہ رائے دی تو کیس بند کرنے کے بجائے ایک اور افسر کو 24 اپریل 2001کو تفتیش سونپ دی گئی مگر جولائی میں اُس نے بھی یہی رائے دی کہ کیس میں کچھ نہیں ہے لہٰذا بند کر دیا جائے۔
2000سے 2016تک نیب نے 7 تفتیشی افسران تبدیل کیے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن سب نے تفتیش کے اختتام پر یہی رائے دی کہ کیس بند کر دیا جائے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ نیب نے 2008میں اسحاق ڈار کے اثاثوں کی 1985سے 1999تک کے دوران آمدن سے مقابلہ کیا اور اپنی رپورٹ میں قرار دیا کہ آمدن سے زیادہ اثاثوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ جو اس دوران انہوں نے خرچ کیا وہ اس سے زیادہ خرچ کر سکتے تھے کیونکہ اس کی آمدن اس سے زیادہ تھی۔
آپ نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد شاہد خاقان عباسی، خواجہ برادران، احسن اقبال، کامران مائیکل اور مفتاح اسماعیل کے کیسوں کو اٹھا کر دیکھ لیں۔ اسی نوعیت کے حالات سامنے آئیں گےاور انہی حالات کے سبب سے آئی ایم ایف کے سامنے کھڑے ہو جانے والے اسحاق ڈار کی گھر کی نیلامی کا آرڈر آگیا ہے کہ آخر مہنگائی روکی تو روکی کیوں اس سے تو جمہوری حکومتوں کا قد بڑھتا ہے۔