Time 22 جنوری ، 2020
پاکستان

آئندہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، صرف امن کیلئے کردار ادا کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب میں کہا کہ ملک میں امن واستحکام تک ہم ترقی نہیں کرسکتے،اب ہم کسی کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے،صرف امن کے خواہاں ممالک کا ساتھ دیں گے۔

اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے تاہم جب میں بڑا ہوا توبرطانیہ جانے تک مجھے نہیں پتا تھا کہ ایک فلاحی ریاست کیسی ہوتی ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں نے سوچ لیا تھا کہ جب بھی مجھے موقع ملا میں پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بناؤں گا اور اب یہی میرا وژن ہے کہ ایسی حکومت ہو جو کمزور طبقے کی فکر کرے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان قدرتی مناظر سے مالامال ہے اور اس کو بچانے کے لیے ہم نے ختم کیے گئے جنگلات کی دوبارہ بحالی کے اقدامات کیے ہیں اور خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت میں رہتے ہوئے ہم نے ایک بلین درخت لگائے۔

انہوں نے بتایا کہ  وزیراعظم بننے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ 4 سالوں میں ملک میں 4 بلین درخت لگائے جائیں گے۔

'شہروں میں آلودگی خاموش قاتل بن چکی ہے'

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہے اور شہروں میں ہونے والی آلودگی خاموش قاتل بن چکی ہے۔

ملکی معیشت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن واستحکام تک ہم معاشی ترقی نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1980 کی دہائی میں شروع ہونے والےافغان جہاد کے اختتام کے بعد عسکری تنظیمیں ہمارے پاس رہ گئیں جس کے مضر اثرات کا ہمیں سامنا کرنا پڑا، اسلحے اور منشیات کے کلچر نے ہمیں متاثر کیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان ایک بار پھر امریکا کے ساتھ جنگ میں شامل ہوگیا جس کے نتیجے میں ملک میں دوبارہ بدامنی کو فروغ ملا، نائن الیون کےبعد پاکستان میں بم دھماکے دیکھنے میں آئے اور 70 ہزار سے زائد پاکستانی  شہید ہوگئے اور پاکستان کا شمار دنیا کے خطرنات ترین ممالک میں ہونے لگا جب کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا100بلین ڈالرکانقصان ہوا۔

'صرف امن کے خواہاں ممالک کا ساتھ دیں گے'

ان کا کہنا تھا کہ اب ہم کسی کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے اور صرف امن کے خواہاں ممالک کےشراکت دارہوں گے، ہم نے سعودی عرب ،ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں کمی کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نےجب حکومت سنبھالی توکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ انتہاپرتھا، سخت معاشی فیصلوں کی وجہ سےعوام کےسخت رویوں کاسامنا کرناپڑا، اس سال ہم اقتصادی گروتھ کیلئےکام کررہے ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کےتحت پاکستان میں زراعت کی پیداوارمیں اضافےکےمنصوبے بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں سرمایہ کاری لا رہے ہیں، روزگار کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں،نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیےپروگرام وضع کیا گیا ہے۔

'حکومت کی توجہ معدنی وسائل کوبروئے کارلانے پر ہے'

عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، ملک میں کوئلے کے بھی بڑے پیمانے پر ذخائر موجود ہیں، حکومت کی تمام تر توجہ معدنی وسائل کوبروئے کارلانے پر ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان تزویراتی لحاظ سے دنیا کے سب سے اہم مقام پر موجود ہے،ایک طرف تیزی سے معاشی قوت بنتا چین ہے تو دوسری طرف معدنی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیائی ممالک ہیں جب کہ تمام معاملات بہتر ہوجائیں تو ایران سے بھی تجارت کے بڑے مواقع موجود ہیں۔

افغانستان کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا پاکستان میں اب کوئی دہشت گردی نہیں ہورہی ، اب مسئلہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال کاہے، پاکستان افغانستان میں امن کیلئے سہولت کارکاکردارا داکر رہاہے۔ 

' امن کیلئےطالبان اورافغان حکومت کومل بیٹھنا ہوگا'

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کیلئےطالبان اورافغان حکومت کو مل بیٹھنا ہوگا،طالبان اورافغان حکومت مل بیٹھیں گےتومعاملات حل ہوناشروع ہوجائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میں نائن الیون کےبعد امریکی جنگ میں شراکت داری کا مخالف تھا، نائن الیون میں پاکستان کاکوئی لینادینانہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کوکہا ہے کہ امریکا اور ایران کےدرمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے، جنگ سے ہرطرف تباہی ہی تباہی ہوگی، تاہم ڈونلڈٹرمپ نےمیرے موقف پر کوئی جواب نہیں دیا، مجھےسمجھ نہیں آتاکہ ممالک تنازعات کاحل فوجی طاقت سےکیوں حل کرتےہیں۔

بھارت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات خوش گوار نہیں ہیں تاہم اگر دونوں ممالک میں تعلقات معمول پر ہوں اور باہمی تجارت ہورہی ہو تو ہم اپنی تزویراتی پوزیشن کی وجہ سے تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں ۔

اپنے خطاب سے قبل  وزیراعظم عمران خان  نے دورے کے دوسرے روز مختلف ممالک کے سربراہان مملکت اور عالمی اداروں کے صدور سے ملاقاتیں بھی کیں۔ 

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی جس میں دونوں کے درمیان مسئلہ کشمیر اور افغانستان پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ 

مزید خبریں :