23 جنوری ، 2020
ڈیووس: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے انتہا پسند گروپوں کو قومی دھارے میں شامل کیا۔
وزیراعظم عمران خان کا امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی اور ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ بدعنوانی اور منی لانڈرنگ سے بھی پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا لیکن موجودہ حکومت سرمایہ کاری کے فروغ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پا چکے ہیں اور ہم نے انتہا پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سرمایہ کاری اور سیاحت کے لیے محفوظ ترین ملک ہے، پاکستان نصف سے زائد دنیا کی اونچی ترین چوٹیوں کا حامل ملک ہے اور گزشتہ سال پاکستان میں سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا، سرمایہ کاری کے لیے بھی ماحول سازگار بنایا جا رہا ہے۔
پاک چین راہداری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سی پیک کے تحفے پر چین جیسے ہمسایہ دوست کے انتہائی مشکور ہیں، سی پیک سے بیرونی سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ 5 اگست سے 80 لاکھ کشمیری محصور ہیں، عالمی برادری جان لے کہ کشمیر کا مسئلہ گھمبیر ہو چکا ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی تسلط قائم کر رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے اور امریکا کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
بھارت کے متنازع شہریت کے قانون پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا بھارتی حکومت نازی ازم کے فلسفے پر عمل پیرا ہے، بھارت میں ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ فروغ پا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا مودی حکومت مہاتما گاندھی کے نظریات سے انحراف کر رہی ہے جب کہ بھارتی شدت پسند تنظیمیں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی شہریت کا نیا قانون مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی ہے، شہریت قانون کی مسلمانوں، عیسائیوں اور ہندو دانشوروں نے بھی مخالفت کی۔
مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات بہترین حکمت عملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا خاتمہ مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔