Time 24 جنوری ، 2020
دنیا

’کورونا وائرس‘ چمگادڑ کے سوپ اور زندہ چوہے کھانے سے پھیلا؟

چینی کے صوبے ہوبئی کے شہر ووہان سے پھیلنے والے مہلک ’کورونا وائرس‘ کے جنم لینے کی ایک وجہ  یہ بھی بتائی جارہی ہےکہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ اور زندہ چوہے  کھانے سے پھیلا۔

چین میں پُراسرار ’کورونا‘ وائرس  سے اب تک 500 سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں جس میں سے  25 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 

برطانوی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ووہان سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر سامنے  آئی ہیں جن میں دیکھا گیا کہ چینی شہری چمگادڑ کا سوپ اور زندہ چوہوں کا کھانا کھا رہے ہیں۔

مذکورہ تصاویر سامنے آنے کے بعد ماہرین کا کہنا ہےکہ ووہان کی مارکیٹ سے ملنے والی چمگادڑ کی ایک قسم’فروٹ بیٹ‘ ، ’کورونا وائرس‘ کے پھیلنے کا سبب بنی جو اب ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو رہا ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ سب سے پہلے جو افراد اس شکایت کےساتھ اسپتال پہنچے تھے ان کا تعلق مقامی ہول سیل مچھلی مارکیٹ سے تھا جہاں مرغیاں، گدھے، بھیڑیں، خنزیر، اونٹ، لومڑیاں، بیڈ جر، چوہے، کانٹوں والا چوہا، بلیوں کی ایک قسم civet، بھیڑیے اور دیگر رینگنے والے جانور دستیاب ہوتے ہیں۔

ویڈیو اسکرین گریب—

ووہان میں موجود اس مارکیٹ کو گزشتہ سال دسمبر میں بند کر دیا گیا تھا جسے اب سیل کرکے سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب غذائی ماہرین بھی اس بات کا پتہ لگا رہے ہیں کہ چوہے اور سانپ کھانا اس وائرس کی وجہ ہو سکتا ہے کیونکہ بھی ووہان کی ان مارکیٹس میں با آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔

ماہرین کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائر س جنگلی چمگادڑوں سے سانپوں میں منتقل ہوا ہوگا جنہیں جنگلوں سے شکار کرکے لانے کے بعد ان کو مارکیٹس میں فروخت کیا جاتا ہے ۔

ماہرین کے مطابق اس بات کا پتا لگایا جارہا ہے کہ کیسے گرم خون کے جانوروں میں سے یہ وائرس ٹھنڈے خون کے جانوروں میں منتقل ہوا اور اس کورونا وائرس جیسی بیماری کا سبب بنا۔

ویڈیو اسکرین گریب—

 طبی ماہرین کی جانب سے 3 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو اس وائرس سے بچاؤ اور اسے مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے ویکسین کی تیاری میں مشغول ہیں۔

کولیشن آف ایپی ڈیمک پری پیرڈنیس انوویشن (سی ای پی آئی) جو ایمر جنسی پروگرامز میں مدد بھی فراہم کرتی ہے ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ جون ہی سے وائرس کے لیے ویکسین تیار کرنے کا سوچا گیا تھا جس کا انسانوں پر ٹیسٹ کرنے کا بھی سوچا گیا تھا۔

سی ای پی آئی نے بتایاکہ اب اس وائرس پر ’یو ایس نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشن ڈیزیز‘ کے ساتھ مل کر تحقیق کی جائے گی اور ویکسین بھی تیار کی جائے گی۔

مزید خبریں :