23 جنوری ، 2020
چین کے صوبے ہوبئی کے وسطی شہر ووہان میں ایک نئے قسم کے وائرس ’کورونا‘ سے کم از کم 18 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ اب تک اس وائرس کے 550 کیسز ساری دنیا سے رپورٹ ہوچکے ہیں۔
کورونا وائرس سے متاثرہ زیادہ تر افراد کا تعلق چین سے ہی ہے جہاں روز بروز متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
چین میں نئے قمری سال کے جشن کے لیے لاکھوں افراد مختلف ممالک سے چین آتے ہیں اور چین میں رہنے والے اندرونِ ملک بڑے پیمانے پر سفر کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس وائرس کے مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
شبہ ہے کہ یہ وائرس چین کی سمندری حیات کی مارکیٹ سے پھیلا ہے جہاں آبی حیات کی غیر قانونی تجارت بھی کی جاتی ہے۔ آئیے اس وائرس کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کورونا وائرسز ایک سے زائد وائرس کا خاندان ہے جس کی وجہ سے عام سردی سے لے کر زیادہ سنگین نوعیت کی بیماریوں، جیسے مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) اور سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم (سارس) جیسے امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔
یہ وائرس عام طور پر جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سارس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بلیوں کی ایک خاص نسل Civet Cats جسے اردو میں مشک بلاؤ اور گربہ زباد وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سے انسانوں میں منتقل ہوا جبکہ مرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نسل کے اونٹ سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
اب بھی بہت سارے کورونا وائرس ایسے ہیں جو جانوروں میں پائے جاتے ہیں لیکن ابھی تک انسان ان سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔
چینی حکام نے 7 جنوری کو اس فیملی کے ایک کورونا وائرس کی تشخیص کی جسے 2019 nCoV کا نام دیا گیا ہے اور اس کی انسانوں میں پہلے کبھی تشخیص نہیں ہوئی۔
اس وائرس کے بارے میں ابھی زیادہ کچھ تو نہیں معلوم مگر یہ بات یقینی ہے کہ یہ انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے، کیونکہ دورانِ علاج چین کے 15 میڈیکل اسٹاف کے افراد بھی اس سے متاثر ہوئے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس کی علامات میں سانس لینے میں دشواری، بخار، کھانسی اور نظام تنفس سے جڑی دیگر بیماریاں شامل ہیں۔
اس وائرس کی شدید نوعیت کے باعث گردے فیل ہوسکتے ہیں، نمونیا اور یہاں تک کے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ اس وائرس کی ایک اور قسم سارس ہے جس سے 3-2002 کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 800 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور یہ وائرس بھی چین سے پھیلا تھا۔
سب سے زیادہ اس کے کیسز چین کے صوبہ ہوبئی، جس کا دارالخلافہ ووہان ہے، وہاں درج کیے گئے ہیں جہاں کورونا وائرس سے کم از کم 18 افراد جاں بحق ہوئے اور 571 کیسز رپورٹ کیے گئے۔
اس کے علاوہ تھائی لینڈ میں 4 جبکہ جنوبی کوریا، تائیوان، جاپان اور امریکا میں بھی اس کا ایک ایک کیس رپورٹ کیا گیا۔
جن لوگوں میں یہ وائرس پایا گیا ان کا تعلق یا تو ووہان سے تھا یا ماضی قریب میں ووہان میں موجود تھے۔
اس وائرس کی اب تک کوئی ویکسین تیار نہیں کی جاسکی ہے اور فی الحال چین نے وائرس دیگر علاقوں تک پھیلنے سے روکنے کیلئے ووہان سے تمام پروازیں منسوخ کردی ہیں اور ساتھ ہی شہریوں کو باور کرایا ہے کہ وہ کسی خاص مقصد کے بغیر وہاں سے کہیں نہیں جاسکتے۔
چینی حکام نے غیر متاثرہ افراد کی بھی اسکریننگ شروع کردی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان سمیت مختلف ممالک نے اپنے ملکوں میں ائیرپورٹس پر چین سے آنے والے افراد کی اسکریننگ کا انتظام کیا ہے تاکہ یہ وائرس ان کے ملک میں نہ پھیلے۔
توقع کی جارہی ہے کہ عالمی ادارہ صحت اس وائرس کے حوالے سے جلد اس بات کا فیصلہ کرلے گا کہ اسے عالمی سطح پر عوامی صحت کا مسئلہ قرار دیا جائے یا نہیں جس کے بعد اس کی روک تھام کیلئے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری انفلوئنزا یا فلو جیسی ہی ہے اور اس سے ابھی تک اموات کافی حد تک کم ہیں۔
ماہرین کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق لوگوں کو بار بار صابن سے ہاتھ دھونے چاہئیں اور ماسک کا استعمال کرنا چاہیئے اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات استعمال کرنی چاہیئے۔