Time 27 جنوری ، 2020
پاکستان

مُردہ ضمیر والی زندہ قوم!

فوٹو: فائل

اسلام آباد کی وزیر کالونی، پانی آلودہ، سینیٹ و قومی اسمبلی ممبران کی رہائش گاہ پارلیمنٹ لاجز، پانی پینے کے قابل نہیں، پارلیمنٹ ہاؤس، پانی مضرِ صحت، اسلام آباد کے سرکاری اسپتال، غریب کیلئے سردرد کی گولی بھی نہیں۔

اسلام آباد میں 20دنوں میں 21بچے اغوا ہوئے یا انکے ساتھ بدفعلی ہوئی، اسلام آباد کے چڑیا گھر کا شیر، مرغیاں ڈائریکٹر چڑیا گھر کے گھر کھائی جاتی رہیں، 24کلومیٹر کا اسلام آباد، 110غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں، اسلام آباد کے سرکاری اسپتال، ویسٹ فروخت ہورہا، اسی ویسٹ کا 40فیصد نئے ’رنگ وروغن‘ اور نئی پیکنگ کے بعد پھر سے سرکاری اسپتالوں کو فروخت ہورہا۔

اسلام آباد میں تجاوزات، غیر قانونی کھوکھے، ٹھیلے، مدرسے، مسجدیں، اسلام آباد کی راول جھیل، گندگی کا ڈھیر، بدبودار، چھپڑ (تالاب) بن رہی اوراسلام آباد کے جنگلات ٹمبرمافیا کی زد میں، یہ وفاقی دارالحکومت کا حال، باقی شہروں، قصبوں، دیہاتوں میں کیا کیا نہیں ہو رہا ہوگا۔

ایک طرف وزیروں کے گھروں کا پانی پینے کے قابل نہیں، اسلام آباد میں سرکاری اسپتال موت بانٹ رہے، اسلام آباد چڑیا گھر کے شیر کا گوشت ڈائریکٹر چڑیا گھر کے گھر پک رہا، دوسری طرف جمہوروں کی اُٹھک بیٹھک، کچرکچر، کچر کچر، باتیں، پارلیمنٹ، سویلین بالادستی کے بدذائقہ، بےمزا بھاشن، سوچیے، وزیروں، پارلیمنٹ ممبران کے گھروں، دفتروں کا پانی آلودہ، مطلب سب کے سب منرل واٹر پی رہے۔

اب جن کے اپنے گھروں کا پانی آلودہ وہ 22کروڑ کو خاک صاف پانی پلائیں گے، جو خود منرل واٹر پی رہے، ان کی بلاسے، پاکستان کا پانی انسانی فضلے والا یا کسی گٹر سے سیراب ہو رہا، سوچیے، اگر اسلام آباد کے اسپتال میں غریب کو سردرد کی گولی نہیں مل رہی، باقی شہروں کے سرکاری اسپتالوں کا کیا حال ہوگا۔

 سوچیے، اگر قائداعظم ثانیوں کا علاج سرکاری اسپتالوں میں ہوتا، سرکاری اسپتالوں کی حالت یہی ہوتی، فراڈ اسلام آبادچڑیا گھر کے شیر سے ہورہے، باتیں ٹرا نسپیرنسی انٹرنیشنل کی۔

بداعمال حکمران، بےبرکتے کام، بد نیتی قوم، انسان جانور، جانور انسان، بحران ہی بحران، 17 مہینے ہوگئے تبدیلی سرکار کو، بحرانی فلم مسلسل چل رہی، دوائیاں بحران، بجلی بحران، گیس بحران، ٹماٹر، پیاز بحران، چینی بحران، آٹا بحران، بحرانی فلم مسلسل چلی جارہی، لیکن ان بحرانوں کی وجہ یا اصل بحران رائٹ پیپل فار رائٹ جاب بحران، سوچیے، 29روپے فی کلو گندم بیرونِ ملک بیچ کر 70روپے فی کلو بیرونِ ملک سے گندم خریدی جارہی ہو۔

24لاکھ ٹن گندم پنجاب کے سرکاری گوداموں میں پڑی ہو اور آٹے کا بحران ہو تویہ رائٹ پیپل فاررائٹ جاب بحران نہیں تو اور کیا ہے، بھٹو زندہ ہے والوں نے تو اخیر ہی کردی، سندھ نے اس سال گندم کا ایک دانہ نہ خریدا، کاغذوں میں سندھ سرکاری گوداموں میں وافر گندم، یہ علیحدہ بات، گودام کھلے تو پتا چلا اربوں کی گندم چوری ہوچکی، ہزاروں بوریوں سے گندم کے بجائے ریت اور مٹی نکلی۔

ابھی کل چیف جسٹس صاحب سندھ حکومت سے پوچھ رہے تھے، ایک اینٹ نہیں لگی، نئی گج ڈیم کے 5ارب کہاں گئے، کے پی کا حال جاننے کیلئے بی آرٹی یا چیف جسٹس کے دوجملے ہی کافی ’’کے پی حکومت کا کیا علاج کروں، یہ کیسے نظام چلارہے‘‘، بلوچستان، کچھ نہ پوچھیں، خلقِ خدا رُل گئی۔

اب مخلوق تو رُل رہی، مگر مافیا کی موجیں، اپٹما مافیا مسلسل کما، کھا رہا، تمباکو مافیا والے جیبیں بھر چکے، سبزی، ٹماٹر، پیاز مافیاز کی چاندی، آٹا مافیا، آٹے، میدے، سوجی، چوکر، ایسی گھمن گھیریاں، مزے ہی مزے، یہ آٹے والے کتنے پہنچے ہوئے، خادم اعلیٰ دور، 22دن کا رمضان بازار، فلور ملوں کو سوا 9 ارب کی سبسڈی دی گئی، یہی نہیں فلور ملوں والے جھوٹے، جعلی کاغذوں پرر یلیف لیتے رہے، نقلی نقلی ملیں چلاکر اصلی اصلی بل وصول کرتے رہے۔

حکومت سے سستی گندم لے کر بازاروں، مارکیٹوں میں مہنگی بیچتے رہے، فلور ملیں، قاعدہ، قانون یہ، 100کلو گندم سے 60کلو آٹا، 24 کلو میدہ، 16کلو چوکر بنائیں چونکہ میدہ مہنگا، یہ سو کلو گندم سے 70سے 80 فیصد میدہ بناتے رہے، 1375روپے فی من حکومت سے گند م لیکر 32سو فی من آٹا بیچتے رہے، قیامت کی نشانی، آٹے میں نمی ایسی، 10کلو آٹے میں دو کلو پانی۔

شوگر مافیا، دوست زاہد گشکوری کی تحقیق، تحریک انصاف حکومت کے دوران اب تک چینی کی قیمت میں 52فیصد اضافہ ہوا، چینی 53روپے فی کلو سے 82روپے فی کلو تک پہنچی، شوگر ملز مالکان نے اکتوبر 2018سے دسمبر 2019ءکے دوران 155 ارب عوام سے اضافی بٹورے، یہی نہیں۔

شوگر مل مالکان نے حکومت سے 18ارب کی سبسڈی بھی لے لی، 45فیصد چینی حکومتی لاڈلے بنا رہے، یہ بھی سنتے جائیے، پچھلے دو سالوں میں جہاں 20شوگر ملیں بند ہوئیں، 4شریفوں کی، 9اومنی گروپ، 7 زرداری گروپ ودیگر کی، وہاں حکومتی شوگر مافیا نے 6نئی شوگر ملز لگائیں، اور سنیے، ملوں پر بھی شوگر مافیا نے حکومت سے 20ارب کی سبسڈی لے لی، یہ بھی سن لیں، مسابقتی کمیشن مطلب حکومت کے اپنے اعداد و شمار، 52روپے فی کلو چینی فیکٹری ریٹ، 17فیصد جی ایس ٹی،یہ بنیں فی کلو آٹھ روپے 84پیسے، دو روپے فی کلو ٹرانسپورٹیشن، اڑھائی روپے فی کلو ڈیلر/ ہول سیل خرچہ، یوں فی کلو چینی پڑے تقریباً 65روپے۔

لیکن بیچی جارہی 80سے 85روپے فی کلو، ہو یہ رہا، چینی، آٹا، ٹماٹر، کسی ایک شے کی ذخیرہ اندوزی کرو،پھر مصنوعی بحران، پھر ایک روپے کی چیز 10میں بیچ دو، پھر اگلی شے کی ذخیرہ اندوزی، اگلا مصنوعی بحران، اگلی شے ایک روپے کی 10میں بیچنی، یہی ہوا، یہی ہورہا، اوپر سے نیچے تک سب ملے ہوئے، لوٹ مار، مسلسل لوٹ مار، کئی تو ایسے، قبروں میں ٹانگیں۔

سہارے کے بنا ایک قدم چل نہ پائیں مگر مسلسل لوٹ مار، دل چاہے روٹی کی جگہ انہیں نوٹ کھلائے جائیں، پانی کی جگہ انہیں نوٹوں کا جوس پلایا جائے، مریں تو انہیں نوٹوں کی قبر میں دفنایا جائے۔

یہ نظام، سماج، حاکم، محکوم، حالت یہ، وزیروں کے گھروں کا پانی پینے کے قابل نہیں، وفاقی دارالحکومت میں غریبوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں، اسلام آباد کے چڑیا گھر کے جانوروں سے دو نمبریاں، ہم زندہ قوم ہیں، مردہ ضمیر والی زندہ قوم۔

مزید خبریں :