عوام کی بس ہوچکی، بھرم چکنا چور ہوچکا

فائل فوٹو

ایک طرف آٹا اور چینی کے بحران میں گھرے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں عنانِ حکومت سنبھل نہیں رہی تھی کہ کے پی کا کٹا کھل گیا۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے خلاف مبینہ طور پر سازش کرنے والے تین باغی صوبائی وزرا کو برطرف اور نو ارکانِ قومی اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری کرکے ممکنہ بڑی بغاوت کا سر کچلنے کا تاثر دیا گیا ہے۔

ایک طرف عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ پنجاب برقرار رہنے سے لاہور سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی کی امیدوں پر پانی پھر گیا تو دوسری جانب کے پی میں وزیراعلیٰ محمود خان کو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر برقرار رکھ کر عارضی ریلیف دیدیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور اسپیکر عبدالقدوس بزنجو سے ایک بار پھر وعدے وعید کر لیے گئے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی بے چینی کا سلسلہ یہیں پر رک جائے گا؟ ماضی میں ہمیشہ وفاق میں حکومت کی مضبوطی اور کمزوری کا انحصار پنجاب پر ہی رہا ہے۔

چاہے جتنے مرضی بیانات جاری کر دیے جائیں کہ فلاں کا کلّہ بہت مضبوط ہے لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ وجہ انتظامی ہو، سیاسی یا کوئی اور، وفاقی حکومت کے ہاتھوں سے پنجاب تیزی سے پھسلتا جا رہا ہے۔ نوشتہ دیوار تو یہ بھی ہے کہ پنجاب میں ایوان کی راہداریوں اور درونِ خانہ اِن ہاؤس تبدیلی کا بیج بو دیا گیا ہے جس کیلئے کام زوروں پر ہے۔

پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کیلئے قاف لیگ سے لے کر تحریک انصاف کے نظر انداز ہونے والے اسپانسر سب اپنی اپنی پتنگ ہوا کے دوش پر چھوڑ چکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو کٹھ پتلی کی طرح چلایا جانا کسی طرح بھی کارِ ہوشمندی نہیں ہے۔

پہلے بیورو کریسی کو دھمکانے کی پالیسی پر عمل کیا گیا اور اب اسے جزوی اختیارات دیئےگئے لیکن اس سیٹ اَپ کا زیادہ دیر تک کامیابی سے چلایا جانا ممکن نہیں ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ سال میں چھ دفعہ لاہور کے دورےمیں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی تنبیہ نہ کی ہو۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی سے ملاقات کے بعد گورنر پنجاب اور ایک عرصہ سے نظر انداز کیے جانے والے عبدالعلیم خان گروپ کیلئے بطور خاص وزیراعظم نے پیغام دیا ہے کہ عثمان بزدار کو نہیں ہٹاؤں گا، کوئی مجھے بلیک میل نہیں کر سکتا، پتا ہے سازشیں کون اور کہاں سے کر رہا ہے۔

اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم دورۂ لاہور سے قبل اور بعد ازاں زبردست دباؤ کا شکار رہے تاہم اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ نئے چیف سیکرٹری اور آئی جی سمیت بیورو کریسی وزیراعلیٰ کی ٹیم بن کر آمنا و صدقنا کہتے رہیں گے۔

وزیراعظم نے ایک بار پھر یہ واضح نہیں کیا کہ کون سازشیں کر رہا ہے۔اس بار لاہور آمد پر وزیراعظم سے ملاقات میں ارکانِ پنجاب اسمبلی نے کھل کر گلے شکوے کیے جو بالکل بےفائدہ ثابت ہوئے۔

وزیراعظم کے حالیہ دورۂ لاہور میں اتحادی ہونے کے ناتے قاف لیگ کی عدم شرکت بھی معنی خیز ہے، جس پر سیاسی حلقے انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔

معاشی بدحالی کی وجہ سے موجودہ حکومت مقتدر حلقوں کیلئے بوجھ بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ شنید ہے کہ اس بار عدم اعتماد کی تحریک پنجاب میں پیش کی جائے گی۔

اس کے بعد وفاق میں اِن ہاؤس تبدیلی کا ڈول ڈالا جائے گا کیونکہ وفاق مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن سے ریلیف نہ ملنے کے خدشہ کے باعث وزیراعظم نے فارن فنڈنگ کیس میں سپریم کورٹ میں درخواست دے دی ہے یعنی پی ٹی آئی حکومت اور تحریک انصاف کے بچنے کا آخری فیصلہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔

ماضی میں بڑی سرعت سے ایسے سیاستدانوں کی ٹی وی کوریج پر پابندی کا حکم جاری کر دیا جاتا تھا جنہیں عدالتوں نے نااہل قرار دیا ہوتا تھا لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔

ایک عدالتی نااہل شخص نہ صرف ہر حکومتی اہم اجلاسوں میں بیٹھ رہا ہے بلکہ کھلم کھلا شطرنج کا کھیل رچا بھی رہا ہے۔ہر اہم ترین معاشی اور سیاسی پالیسی سازی میں اس کی شمولیت کے باوجود عوام کیلئے اسے سہنا محال ہو چکا ہے کیونکہ اس کا ہر تریاق زوال کو دعوت دیتا ہے۔

عوام کی بس ہو چکی ہے اور وہ یہ کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس تم ہو کا بھرم چکنا چور ہو چکا ہے۔

مزید خبریں :