28 جنوری ، 2020
اگر پاکستان ہمارا ملک ہے تو اپنے ہی ملک کے رہنماؤں اور باشندوں کو ہمہ وقت اڑنگی دینے اور دھول چٹانے سے کیا فائدہ ہو گا۔ کسی کو شیطان اور کسی کو فرشتہ سمجھنے کی لاحاصل مشق میں ہم نے بہت وقت گنوایا ہے۔
سامنے کا سبق یہ ہے کہ کسی فرد یا واقعے سے امیدیں باندھنے کے بجائے حقائق، مسائل، وسائل اور امکانات پر معروضی طریقے سے غور و فکر کر کے قوم کو مشکلات سے نکالنے کا کوئی نقشہ مرتب کرنا چاہئے۔ عمران خان صاحب کی حکومت کا رنگ و روغن اُتر چکا۔
یہ زوال عصر کا وقت ہے۔ غلام مشعلیں لے کر دوڑتے پھرتے ہیں۔ صفوں میں تزلزل کے آثار ہیں، کرائے پر لئے گئے مرہٹہ لڑاکے بات بات پر آنکھیں نکالتے ہیں۔ کسی کو گھرکی دی جاتی ہے تو کسی کی للو پتو کی جا رہی ہے۔
اہلِ بصیرت ایسے وقت میں چراغ گل کر دیتے ہیں کہ جسے سر کی سلامتی چاہئے، میر لشکر کے خیمے سے نکل لے۔ یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کوتوال سے کہا جا رہا ہے کہ مورچوں کی نگرانی سخت کر دی جائے۔ دیکھیے، گورو نانک کی نگری سے آنے والے اعجاز دست سنیاسی کی زنبیل میں دھرے نسخے تو اقتدار کی چڑھتی جوانی کو شاداب کیا کرتے ہیں۔
عالم ضعف میں معجون شباب ارادوں کو تقویت دینے کے بجائے اعضائے رئیسہ کو مختل کر دیتا ہے۔ وزیراعظم نے ڈیووس کی خنک فضا میں تجویز کیا ہے کہ قوم اخبار پڑھنا اور ٹیلی وژن دیکھنا بند کر دے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کمک پر بیٹھے لشکری ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی بد دعائیں دے رہے ہیں۔
یہ تو برے آثار ہیں فانیؔ…20جنوری 2018کو اسی موقر اخبار میں دست بستہ گزارش کی تھی کہ ’عمران خان ابھی میرے وزیر اعظم نہیں بن سکتے‘۔ حسب توقع ٹھٹھا کیا گیا۔ 17ستمبر 2019کو حکومت کا ایک برس مکمل ہونے کے بعد پھر عرض گزاری کہ ’عمران خان کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟‘۔
یہ صدا بھی کار زیاں ٹھہری۔ اب وہ پانی بہ ملتان گئے۔ اب اگر کسی کو خیال ہو کہ معیشت، سیاست اور ریاست کا یہ ملبہ عمران خان پر ڈال کر خود ہاتھ جھاڑ لئے جائیں تو مشت بعد از جنگ کا پرچہ ترکیب استعمال کچھ اور ہے۔
خرابی عمران خان، ان کی جماعت اور ان کے رفقا میں نہیں، یہ عہد عبور تو ایک قدیمی عارضے کی ایسی پیوند کاری تھی جس کی ترکیب میں سبز ہونا نہیں لکھا تھا۔ آئیے۔ آج کی محضر کے کچھ اشارے دیکھیں۔
ہینلے پاسپورٹ انڈیکس نے 107ممالک کے پاسپورٹ کی درجہ بندی کی ہے۔ پاکستان کو مسلسل تیسرے برس بھی اس فہرست میں 104درجے پر رکھا گیا ہے۔ ہم سے نیچے صرف تین ممالک ہیں، عراق، افغانستان اور شام نیز یہ کہ ہمیں صومالیہ سے برابری کی عزت ملی ہے۔
ان چاروں ممالک میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ سوچنا چاہئے، ہم کس سے لڑ رہے ہیں؟ 15جنوری کو امریکی عدالت نے پانچ پاکستانی شہریوں پر ممنوعہ برآمدات کا نیٹ ورک چلانے کی فرد جرم عائد کی ہے۔ الزامات کی تفصیل بیان کرنے کا یارا نہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پیرس اجلاس کے بعد وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان جون 2020تک گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔
حماد اظہر جدید تعلیم یافتہ سیاست دان ہیں۔ یقیناً سمجھتے ہوں گے کہ کسی ملک کی اس گرے لسٹ میں بار بار جلوہ گری سے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری کی اچھی کہی۔
ڈیووس میں محترم وزیراعظم نے اپنے ملک کے داخلی معاملات کی جو تصویر کشی کی، وہ بذات خود سرمایہ کاری کے مقصد سے منعقد ہونے والے اس اجتماع کی تاریخ میں ایک طرفہ تماشا ٹھہری۔ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ (Fitch) نے پاکستان کو مائنس بی درجہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ Bدرجے میں آنے والے ممالک کے فی کس جی ڈی پی کی اوسط 3470ڈالر ہے۔
پاکستان 1382ڈالر کے فی کس جی ڈی پی کے ساتھ اس اوسط حد سے بہت پیچھے ہے۔ اس کی کچھ تفصیل بھی بتائی گئی ہے، شرمساری مانع ہے کہ وہ اسباب لکھے جائیں۔ جاری مالیاتی خسارے میں کمی پر وزیراعظم بہت نازاں ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ یہ بہتری برآمدات میں اضافے سے نہیں ہوئی، درآمدات میں کمی کی مرہون منت ہے۔
یعنی اقتصادی سرگرمی ماند پڑ گئی ہے۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرض اور امداد کے باوجود پاکستان کو قرضوں کی ادائی اور دیگر اخراجات کے لئے بیرونی ذرائع سے قریب 20ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی برس میں اقتصادی ترقی کی شرح 2.4فیصد رہے گی۔
بینکاری کے شعبے سے خبر ہے کہ رواں ماہ یعنی جنوری 2020میں CPIیعنی مہنگائی کی شرح 13.6فیصد کو پہنچ گئی جو پچھلے نو برس کی بلند ترین شرح ہے۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔
اب فرمائیے کہ کیا خرابی کی ان صورتوں کا ذمہ دار عمران خان ہے۔ نہیں بھائی، اس شریف انسان کا قصور محض یہ ہے کہ سیاسی عمل کی مبادیات اور جمہوریت کی حرکیات نہیں سمجھتا اور وزیر اعظم کے منصب کی خواہش پال لی۔ عمران خان کی اس معصوم خواہش کی تکمیل کے لیے جو تعمیراتی نقشہ بنایا گیا، اس سے سیاست کا جغرافیہ مسخ ہو گیا ہے۔
اس فصل پر برگ و بار لانے کے لیے محکمہ زراعت نے جو ہل چلایا، اس سے 22کروڑ چیونٹیوں کے گھروندے تباہ ہو گئے ہیں۔ حکومت کی عمل داری مجروح ہوئی ہے، انتظامی مشینری مفلوج ہو گئی ہے۔
ریاست کی ساکھ گر گئی ہے۔ عمران خان کی جماعت اور ان کے حامی بدستور ہمارے ہم وطن اور اس قوم کا اثاثہ ہیں۔ بارہ صفحے کی ایک دستاویز کہیں رکھی ہے جسے دستور کہتے ہیں۔
اس دستور کے 280آرٹیکل قوم کی امانت ہیں، انہیں بازیاب کیا جائے۔ ہم غریب، نیم خواندہ اور پسماندہ لوگ سہی، لیکن ہم پھاوڑا چلانا جانتے ہیں، لکڑی اور لوہے کا کام کر لیتے ہیں، جوتے بنا لیتے ہیں، کپڑا بن لیتے ہیں۔
ہم 75برس پہلے ووٹ سے یہ ملک بنا سکتے ہیں تو ووٹ سے یہ ملک چلا بھی لیں گے۔ عمران خان پر تبرے کا ہمیں شوق نہیں، ہم تو اپنی چھت تلے پلنے والی نسلوں کے لئے عزت کا ٹکڑا مانگتے ہیں۔