30 جنوری ، 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو ( نیب) پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے وارنٹ گرفتاری نکالے جاتے ہیں، مجبور نہ کریں کہ آبزرویشن دیں کہ سب کچھ بدنیتی پر مبنی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اکرم درانی کی آمدن سے زائد اثاثوں، غیر قانونی بھرتیوں، غیر قانونی الاٹمنٹس اور بلٹ پروف گاڑی سے متعلق 4 نیب انکوائریز میں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ اکرم درانی کی گرفتاری کی وجوہات سے متعلق سپلیمنٹری رپورٹ جمع کرا دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اکرم درانی نے جعلی ڈومیسائلز پر غیر قانونی بھرتیاں کرائیں، اگر ریکارڈ پر ٹھوس شواہد ہوں تو ملزم کو گرفتار کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وائٹ کالر کرائم اور ا سٹریٹ کرائم میں فرق ہوتا ہے۔
معزز جسٹس کا کہنا تھا کہ وائٹ کالر کرائم میں اگر تفتیشی افسر گرفتاری کے بغیر انکوائری نہیں کر سکتا تو وہ نااہل ہے، ابھی معاملہ انکوائری کے مرحلے پر ہے، اگر درخواست گزار نیب سے تعاون کر رہا ہے تو پھر گرفتار کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ نے گرفتاری کے بعد تھرڈ ڈگری کرکے کوئی اعتراف جرم کرانا ہے؟
نیب کی پیش کردہ (غیر قانونی الاٹمنٹس) فہرست دیکھ کر چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں تو سول ججز بھی شامل ہیں، کیا نیب ان کے خلاف بھی کارروائی چاہتا ہے؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ کے استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں، کیا آپ نے اس بارے میں رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ سے رابطہ کر کے پوچھا کہ الاٹمنٹ کیسے ہوئی؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نیب کے مطابق گھر من پسند افراد کو الاٹ کیے گئے تو یہ بھی بتا دیں سول ججز کس کے پسندیدہ ہیں؟
معزز جج کا کہنا تھا کہ کیا آپ مذاق کر رہے ہیں؟ عدالت کو مجبور نہ کریں کہ سب کچھ بدنیتی پر مبنی ہونے کی آبزرویشن دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب تمام ریکارڈ دوبارہ دیکھ کر فیصلہ کریں کہ اس کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کرنے ہیں یا نہیں؟
عدالت نے اکرم درانی کی عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے سماعت 19 فروری تک ملتوی کر دی۔