Time 31 جنوری ، 2020
پاکستان

پنجاب میں یہ بھی تو ہوسکتا تھا

فوٹو: فائل

1947سے پہلے برصغیر میں سرینگر کے علاوہ دو سیاحتی مقام بڑے مشہور تھے، یہ دونوں یعنی شملہ اور مری پنجاب میں تھے، تقسیم کے بعد بھارتی سرکار نے مشرقی پنجاب کو مزید تقسیم کیا تو ہماچل پردیش کو صوبہ بنا کر شملہ کو اس کا دارالحکومت بنا دیا۔

مری ہمارے پاس ہے، لاکھوں سیاح مری کا رخ کرتے ہیں، برصغیر میں چار تخت عظمت کی علامت رہے، یہ چاروں پنجاب میں ہیں، ٹیکسلا کا تخت ہزاروں سال پرانا ہے، قبل مسیح میں سکندرِ اعظم کا پایہ تخت ٹیکسلا ہی تھا۔

اشوک اور چندر گپت موریہ بھی یہیں تھے، چانکیا نے ارتھ شاستر ٹیکسلا کی وادیوں ہی میں تحریر کی تھی، سنسکرت کی پہلی گرائمر یہیں ترتیب پائی، ٹیکسلا قدیم تہذیبوں کا شہر ہے، گندھارا آرٹ تہذیبی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بدھا کی یادگاریں بھی ٹیکسلا میں ہیں۔

تختِ ملتان پر بھی پرانی تہذیبوں کے اَنمٹ نقوش ہیں، ملتان نے کئی حکومتوں کے عروج و زوال دیکھے، ملتان کے بعد دلّی اور لاہور کا تخت ہے۔ دلّی کئی بار اُجڑا، کئی بار آباد ہوا۔ یہاں کئی تختوں کی نشانیاں ہیں۔ شعرا نے دلّی کے اُجڑنے کی داستانوں کو شعری زبان عطا کی، وقت نے دلّی کو دہلی بنایا اور حکومتوں کے عروج و زوال نے پایہ تخت کو پرانی دہلی سے نئی دہلی منتقل کر دیا۔

لاہور شہر بھی حکومتوں کے عروج و زوال کی کہانی سناتا ہے۔ یہاں رنجیت سنگھ کی یادیں ہیں۔ اپنے جیسے دو آدمی بغلوں میں لے کر بھاگنے کی آواز لاہور کے شاہی قَلعہ کی دیواریں بتاتی ہیں کہ عظیم مغل حکمران بابر یہاں بھاگتا تھا، لاہور میں اکبر اور جہانگیر کی یادیں ہیں۔

دریائے راوی کے پار جہانگیر کے مقبرے کی بھی ایک تاریخ ہے، کسی نے اس زمین پر سید الانبیاﷺ کا دیدار کیا تھا، لاہور ہی میں علی ہجویریؒ آسودۂ خاک ہیں، شاہ جہان کے مرشد میاں میرؒ دفن ہیں، یہیں اورنگزیب عالمگیر کی بنائی ہوئی شاہی مسجد ہے، مسجد کے سامنے عاشقِ رسول علامہ اقبالؒ مدفون ہیں۔

لاہور باغوں اور کالجوں کا شہر ہے۔ پنجاب میں عظیم فاتح امیر تیمور کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ پورے پنجاب میں جگہ جگہ تاریخی مقامات ہیں، ہمیں اپنی سیاحت کو فروغ دینا چاہئے تھا۔ ہمارے پاس وہ کچھ ہے جو دنیا کے پاس نہیں۔ ہمارے پاس چکوال میں پانچ ہزار سال پرانا کٹاس راج ہے، جہلم میں قَلعہ روہتاس ہے، سالٹ رینج ہے، جہلم کے پاس ہی تو سکندرِ اعظم کے گھوڑوں نے پتھر چاٹ کر نمک کی دریافت کا راستہ دکھایا تھا۔

کلرکہار میں تختِ بابری ہے۔ بھیرہ صدیوں کی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے، گجرات، سیالکوٹ اور منڈی بہائوالدین میں کئی تاریخی یادگاریں ہیں۔ ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب میں بابا گورو نانک کی یادیں ہیں۔ کرتارپور میں آخری آرام گاہ ہے، اسی دھرتی سے پنجابی کے نامور شاعر شیو کمار بٹالوی اور افضل احسن رندھاوا نے جنم لیا، ڈسکہ، سیالکوٹ امرتا پریتم کو کیسے بھول سکتا ہے؟

جھنگ میں صدیوں کی تاریخ ہے، خوشاب میں جھیلوں کا بسیرا ہے، ہڑپہ کے کھنڈرات قدیم تاریخ کے گواہ ہیں۔ بہاولپور اور رحیم یار خان میں کئی مقامات قابلِ دید ہیں، ڈیرہ غازی خان کے پاس فورٹ منرو ہے، ملکہ ہانس بھی قابلِ دید ہے۔

کہا جاتا ہے جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ ہمارے پاس دریاؤں کا سنگم پنجند ہے، ہمارے پاس درگاہیں، مساجد، مندر اور گوردواروں کے علاوہ تاریخی چرچ بھی ہیں، کالا باغ سے اوپر کندسر کو سیاحتی مقام بنایا جا سکتا تھا، ہمارے پنجاب میں دریا، نہریں، ندیاں، آبشاریں اور جھیلیں ہیں۔

چولستان جیسا خوبصورت صحرا ہے، صحرا کی چاندنی رات کا اپنا حسن ہے۔ ہمارے پاس بانسری سمیت موسیقی کے دلچسپ آلات ہیں۔ ہمارے ہر شہر کی کوئی نہ کوئی سوغات ہے، ہم راولپنڈی، لاہور، ملتان، بہاولپور اور بھیرہ سمیت کئی شہروں کے اندرونی حصے کو سیاحوں کیلئے پُرکشش بنا سکتے ہیں مگر کسی نے سیاحت کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔

ورنہ ہمارے پاس تو کئی تاریخی شخصیات کے گھر اور یادگاریں موجود ہیں مثلاً ماضی قریب ہی کو لے لیں، ہم منمومن سنگھ اور اندر کمار گجرال کے گھروں کو تاریخی ورثہ بنا سکتے تھے، دینہ میں گلزار کا گھر اور کالا قادر میں فیض صاحب کا گھر سیاحوں کیلئے کھولا جا سکتا ہے۔

قصور میں نور جہاں کا گھر، فیصل آباد میں نصرت فتح علی کا گھر سیاح ضرور دیکھنے آئیں گے۔ ہمارے پاس لوک داستانیں ہیں، ہم سیاحوں کو مقبرۂ ہیر پر لے جا سکتے ہیں۔ ہمارے پنجاب میں بڑی بھرپور سیاحت ہو سکتی ہے مگر ہماری حکومتوں نے کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔

اگر اس طرف توجہ دی جاتی تو کمال ہو جاتا۔ ہم دنیا کو وارث شاہؒ، بلّھے شاہؒ اور میاں محمد بخشؒ کی یادگاریں ہی دکھا دیتے، ہمارے پاس بہت سے تاریخی قَلعے ہیں۔

پنجاب پر 40 سالہ حکومتوں نے نہ سیاحت کو بڑھایا، نہ زراعت کو، نہ ہی زراعت سے جڑی ہوئی صنعت کو، بس ان کی اپنی دولت تو بڑھ گئی مگر پنجاب غریب ہو گیا،  باقی اگلے کالم میں، فی الحال حسن بیگ کا شعر:

ہم بھی ناپید نہ ہو جائیں کہیں دیکھ

میں خوفزدہ وقت کی رفتار سے ہوں

مزید خبریں :