21 جنوری ، 2020
برطانوی پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ کے تحت پاکستان اور بھارت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا، چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب علیحدگی ہو گئی مگر پنجابیوں کو دو دن بعد بتایا گیا کہ پنجاب تقسیم ہو گیا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے قیام کے وقت دراصل پنجاب ہی تقسیم ہوا تھا، پنجاب کے 17 اضلاع پاکستان جبکہ 12 اضلاع بھارت کو دے دیے گئے، پنجاب کا مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور بھی بھارت کے حوالے کر دیا گیا جس کی وجہ سے بھارت کو کشمیر کا راستہ مل گیا۔
تقسیم سے پہلے پنجاب میں مسلمان، سکھ اور ہندو پیار سے رہتے تھے، مگر جب بٹوارہ ہوا تو پنجابیوں نے آپس میں ایک دوسرے کو بہت مارا، پندرہ سے بیس لاکھ پنجابی موت کی بانہوں میں چلے گئے۔
سب سے تکلیف دہ نقل مکانی پنجابیوں کی ہوئی، دو تین کروڑ پنجابیوں کو گھر چھوڑنا پڑے۔ جب آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا تو پنجاب کے دریا رو رہے تھے، دریائوں کا پانی خون سے سرخ ہو چکا تھا، بیلے میں لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
یہ ظلم تاریخ میں گم ہو چکا ہے مگر اب بھی دونوں اطراف کے پنجاب میں کچھ بزرگ خواتین مل جاتی ہیں جو ظلم کی داستان کی گواہیاں دیتی ہیں، کچھ افراد مل جاتے ہیں جن کی بپتا پہ رونا آتا ہے۔
پنجابی بڑے دل کے لوگ ہیں، ظلم کے دریا پار کر کے بھی انہوں نے باقی پاکستانیوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیے، پنجاب کے کئی شہروں میں پورے پورے محلے اردو بولنے والوں کے ہیں، جنوبی پنجاب بلوچوں سے بھرا ہوا ہے بلکہ بلوچ خوشاب، سرگودھا، جھنگ اور فیصل آباد تک آباد ہیں۔
پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں کاروبار پٹھانوں کے پاس ہے، پنجابی کسی دوسرے صوبے میں کام کاروبار کا تصور بھی نہیں کر سکتا، ہاں ایک کراچی ہے جس نے ملک کے کونوں سے آنے والوں کو پناہ دے رکھی ہے۔
دل چاہتا ہے کہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا سے اپنے بہن بھائیوں کو پورا پنجاب گھمائوں تاکہ انہیں پتا چل سکے ظالم پنجاب کے لوگ تو بڑے مظلوم ہیں، اتنے مظلوم کہ ان کے اسکولوں میں ان کی زبانیں نہیں، پنجاب میں چار بڑی زبانیں ہیں مگر چاروں کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔
نہ پوٹھوہاری اسکولوں میں ہے، نہ جھنگوچی کہیں نظر آتی ہے، پنجابی اور سرائیکی بھی اسکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی، آج کے پنجاب میں جاٹوں کے گھروں میں اردو ایسے بولی جاتی ہے جیسے وہ لکھنؤ کے رہنے والے ہوں۔
جنوبی پنجاب کے لوگوں نے سرائیکی ادب کی بہت خدمت کی، پنجابی زبان میں وہ خدمت بھی نہیں ہو سکی اور پوٹھوہاری تو ادب کی خدمت ہی بھول گئے، یقین کیجئے ابھی تک پنجابی اور سرائیکی کو زندہ رکھنے میں لوک فنکاروں کا بڑا کردار ہے۔
عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، منصور ملنگی، شوکت علی، اللہ دتہ لونے والا، عارف لوہار، اکرم راہی سمیت کئی فنکار زبانوں کی خدمت کر رہے ہیں، پنجابی کو تو ابرار الحق نے بھی خوب تڑکا لگایا، پورے برصغیر میں لوگ شادی بیاہ پر پنجابی میوزک سے لازمی مستفیض ہوتے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ پنجابی بیٹ کا منفرد ہونا ہے، مہندی کی تقریبات تو بے شک کراچی میں ہو رہی ہوں یا دلی میں، لوگ پنجابی بھنگڑا ہی پسند کرتے ہیں، نور جہاں اور نصرت فتح علی خان نے بڑے یادگار پنجابی گیت گائے مگر نوجوان سکھ گلوکاروں کو اس لئے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دورِ جدید میں انہوں نے کمال کر دیا ہے۔
دوسرے صوبوں کے بہن بھائیوں سے عرض ہے کہ کبھی آپ گجرات، منڈی بہائو الدین اور سیالکوٹ کے محل نما گھروں کو دیکھ کر یہ نہ سوچنا کہ ’’پنجاب کھا گیا ہے‘‘ بلکہ یہ سوچنا کہ ان گھروں کے پیچھے وہ مزدوریاں ہیں جو پنجاب کے باسیوں نے یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں کی ہیں۔
اسی طرح ملتان، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان کے پختہ گھروں کو دیکھ کر کچھ اور نہ سوچنا بلکہ یہ سوچنا کہ ان گھروں کی بناوٹ میں وہ پسینہ شامل ہے جو جنوبی پنجاب کے باسیوں کو مزدوریوں کے طفیل مشرق وسطیٰ میں نصیب ہوا۔
دنیا جانتی ہے کہ عربی کے بعد سعودی عرب میں سب سے زیادہ سرائیکی بولی جاتی ہے۔ سو شمالی، وسطی اور جنوبی پنجاب میں نظر آنے والی امارت دراصل بیرونِ ملک کی کمائیاں ہیں۔
پچھلے کالم میں پنجاب کی سیاسی و انتظامی بدنصیبی کا رونا رویا تھا، اگلے کالم میں لکھوں گا کہ پنجاب کے ساتھ انصاف کس طرح ہونا چاہئے، اردو کے نامور شاعر، ادیب، کالم نگار اور اینکر پرسن پیدا کرنے والا پنجاب کتنا محروم ہے کہ پنجابی زبان میں کوئی اخبار نہیں، اگر کوئی ہے بھی تو برائے نام۔
اسی طرح کوئی ٹی وی چینل پنجابی نہیں، شروع میں ایک چینل تھا مگر پھر اس کی بھی پذیرائی نہ ہو سکی، پنجاب کے لباس کے ساتھ بھی بڑا ظلم کیا گیا، تمام بڑے ہوٹلوں میں دروازے کھولنے والوں کو پگڑیاں پہنا کر کھڑا کر دیا گیا، پنجاب کے گورنر ہائوس میں بھی یہ ظلم ہوا کہ وہاں ویٹرز کو پگڑیاں پہنا دی گئیں۔
یہ ظلم کی تاثیر ہے کہ آج پنجاب کے دیہات میں بھی دھوتی، لاچا اور تہبند کرتا نہیں ملتا، پنجاب کے کھیل بھی ختم ہو کر رہ گئے، نیزہ بازی، کبڈی، گلی ڈنڈا اور رسہ کشی نظر نہیں آتے۔
اسی طرح کیکلی، اشٹاپو اور گدا ختم ہو گئے، پنجاب میں فصلوں کی پیداوار کی کمی نے وساکھی اور میلوں کا حسن بھی چھین لیا، اب یہ سب ماضی کا حصہ بن کے رہ گئے ہیں۔ اب وہ آٹھ آٹھ روزہ پڑیویاں نظر نہیں آتیں، میلے ٹھیلے غائب ہو گئے۔ دارے، حقے، حویلیاں ختم ہو گئے۔
ہیر کی محفلیں ختم ہو گئیں، میاں محمد بخشؒ کا کلام سنانے والی محفلوں کو پتہ نہیں کون کھا گیا، مرزا صاحباں اور یوسف زلیخا کے قصے سنانے والے داستان گو پتا نہیں کیوں نہیں رہے؟ یہ پنجاب کا حسن تھا، پنجاب کی لہلہاتی فصلیں غائب ہوئیں تو یہ سب کچھ غائب ہو گیا۔ بقول امرتا پریتم ؎
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتی زہر رلا
تے اوہناں پانیاں دھرتی نوں دتا پانی لا