سرطان: دُنیا بَھر میں اموات کی وجوہ میں سرِفہرست

فوٹو: فائل

سرطان کا شمار اُن مہلک بیماریوں میں کیا جاتا ہے، جو دُنیا بَھر میں اموات کا سبب بننے والے امراض میں سرِفہرست ہیں۔

حالانکہ ماضی کی نسبت موجودہ دَور میں سرطان کی تشخیص اور علاج معالجے کے حوالے سے جدید سے جدید سہولتیں میسّر ہیں، اس کے باوجود پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں اس کے پھیلاؤ کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دُنیا بَھر میں ایک کروڑ80لاکھ افرادسرطان کا شکار ہیں،جب کہ گزشتہ برس سرطان کے سبب96لاکھ اموات ہوئیں، جو مریضوں کی کُل تعداد کے نصف سے بھی زائدہے۔

پاکستان میں ساڑھےتین لاکھ سے زائد افرادمختلف اقسام کے سرطان کا شکارہیں،جب کہ ہر سال ایک لاکھ سے زائد مریض جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں اور جو کیس رپورٹ نہیں ہوتے ،وہ الگ ہیں۔ سرطان سے ہونے والی اموات پر قابو پانے میں سب سے بڑی رکاوٹ عوام النّاس میں مرض سے متعلق شعور و آگاہی کی کمی ہے۔

اسی لیے پہلی بار عالمی سطح پر2000ء میں عالمی ادارۂ صحت، بین الاقوامی ایجینسی فار ریسرچ آن کینسر (IARC: International Agency For Research on Cancer) اور یونین فار انٹرنیشنل کینسر کنٹرول (UICC: Union For International Cancer Cantrol) کے اشتراک سےدُنیا بَھر میں4فروری کو ایک تھیم منتخب کرکے’’کینسر کا عالمی دِن‘‘ منایا گیا،جس کے بعد سےیہ یوم منانے کا سلسلہ تاحال جاری ہے،تاکہ مرض سے متعلق ہر سطح تک بنیادی معلومات عام کی جاسکیں۔امسال گزشتہ برس ہی کا تھیم دہرایاجارہاہے،جو "I Am and I Will" یعنی(مَیں ہوں اور مَیں رہوں گا)ہے۔

سرطان ایک غیر متعدی مرض ہے، جو خلیوں کی غیر فطری نشوونما کے سبب لاحق ہوتا ہے۔ہمارےجسم میں خلیات کا ایک مربوط نظام موجودہے، جس کے تحت ناکارہ ہونے والےخلیےخود بخود ختم ہوجاتے ہیں اور اُن کی جگہ نئے خلیے لے لیتے ہیں۔اگر اس نظام میں کسی بھی سبب کوئی خرابی واقع ہوجائے، تو نہ صرف ناکارہ خلیات اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں، بلکہ ضرورت سے زائد نئے خلیات کی افزائش بھی ہونے لگتی ہے۔

یوں غیر ضروری خلیات ایک گلٹی کی صُورت جمع ہو جاتے ہیں، جسے ٹیومر یا رسولی کہا جاتا ہے۔ خلیات میں یہ غیر معمولی اضافہ جسم میں کئی اور خرابیوں کا بھی سبب بن سکتا ہے ۔ مثلاً خلیات پر دباؤ کے باعث کسی عضومیں خون کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے، تو بعض اوقات عضو ناکارہ بھی ہوجاتا ہے۔

فوٹو: فائل

سرطان کی اقسام 

یوں توسرطان کی کئی اقسام ہیں،مگر پھیپھڑوں، بریسٹ اور آنتوں کے سرطان کو دُنیا بَھر میں اموات کا سبب بننے والی ابتدائی پانچ بیماریوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں، پروسٹیٹ اور معدے کےسرطان کا شمار بھی مُہلک اقسام میںہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی مَردوں میں سب سے زیادہ اموات کا باعث بننے والا مرض، منہ کا سرطان ہے۔ واضح رہے کہ منہ کا سرطان صوبۂ سندھ کے شہری علاقوں میں زیادہ عام ہے،جب کہ یہ90فی صد سے زائد اُن افراد کو لاحق ہوتا ہے، جو پان، چھالیا، گٹکے، تمباکو اور الکحل کا استعمال کرتے ہیں۔

منہ کےسرطان کا علاج منہگا ہی نہیں، بلکہ انتہائی مشکل اور تکلیف دہ بھی ہے ۔بدقسمتی سے انتہائی منہگے آپریشن کے اخراجات برداشت کرنے،ریڈیائی شعاؤں کے صبر آزما اوردیگر تکلیف دہ مراحل سے گزرنے کے بعد بھی50فی صد مریض دورانِ علاج ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں،تو بچ رہنے والے مریضوں کی بھی زندگی مشکل اور کٹھن ہی گزرتی ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ بعض مریض،علاج کے بعددوبارہ بُری علّتوں کا شکار ہوجاتے ہیں، نتیجتاًدوبارہ سرطان لاحق ہونے کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ جاتے ہیں۔

بہتر تو یہی ہے کہ ان مضر ِ صحت اشیاء کے استعمال سےاجتناب ہی برتا جائے، تاکہ منہ کے سرطان سے محفوظ رہا جاسکے۔بریسٹ کینسر کی شرح بھی صرف ترقّی پذیر ہی نہیں، ترقّی یافتہ مُمالک میں بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تاہم، ایشیائی مُمالک میں پاکستان سرِفہرست ہے کہ یہاں ہر8خواتین میں سے ایک میں بریسٹ کینسر کا رِسک موجود ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں10سے15فی صد خواتین عُمر کے کسی بھی حصّے میں بریسٹ کینسر کا شکارہوسکتی ہیں۔نیز،اس مرض کے ہاتھوں سالانہ40ہزار خواتین لقمۂ اجل بن جاتی ہیں۔بدقسمتی سے ان مَرنے والیوں میں سے نصف خواتین وہ ہیں، جنہیں سِرے سے علاج معالجے کی سہولت میسّر نہیں آتی ۔

بریسٹ کینسرکے خطرات بڑھانے والے عوامل

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سالانہ ایک لاکھ خواتین میں بریسٹ کینسر تشخیص ہوتا ہے اور ان میں سے دو تہائی سے زائد خواتین میں یہ مرض ناقابلِ علاج حد تک بڑھ چُکا ہوتا ہے۔ مرض لاحق ہونے کی حتمی وجہ تاحال دریافت نہیں کی جاسکی۔تاہم بعض عوامل بریسٹ کینسرکے خطرات بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

جیسےموروثیت (مثلاًوالدہ، بہن، نانی یا دادی وغیرہ کو بریسٹ کینسر ہو)، ماہ واری کم عُمری میں شروع ہوکر زائد عُمر تک جاری رہے ، بانجھ پَن یا پہلا بچّہ تیس برس سے زائد عُمر میں ہو۔علاوہ ازیں، سہل پسندی، موٹاپا، ہارمون ری پلیسیمنٹ تھراپی،الکحل اور دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی وجہ بن سکتا ہے۔

بریسٹ کینسرکےابتدا میں ایک گلٹی ظاہر ہوتی ہے،جس کے حجم میں اضافے کے ساتھ پھر مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں، جن میں بریسٹ کی ساخت میں تبدیلی، درد، نِپل کا اندر دھنس جانا، زخم بننا، خون یا رطوبت کا اخراج، بغل میں غدود محسوس ہونا اور سُوجن وغیرہ شامل ہیں۔

مرض کی بروقت تشخیص اور علاج کی بدولت صحت یابی کے امکانات90فی صدہوتے ہیں،مگرافسوس کہ زیادہ تر کیسز میں مرض کی تشخیص تب ہی ہوپاتی ہے، جب علاج خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سےدس برس قبل 2.3فی صد خواتین بریسٹ کینسر کی تشخیص کرواتی تھیں اور اب بھی یہ شرح 10فی صد سے کم ہی ہے۔

پھیپھڑوں کے سرطان کےتقریباً25فی صد مریضوں میں تو سِرے سے علامات ظاہرہی نہیں ہوتیں،جن75فی صد افراد میں علامات ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں مسلسل کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون کا اخراج، آواز میں تبدیلی، سانس لینے میں دشواری یا خرخراہٹ محسوس ہونا اور وزن میں متواتر کمی وغیرہ شامل ہیں۔

اگر علاج کے باوجود افاقہ نہ ہو اور کھانستے ہوئے تھوک میں خون بھی شامل ہو تو یہ پھیپھڑوں کے سرطان کی ابتدائی علامت ہو سکتی ہے،لہٰذا اس واضح علامت کے ظاہر ہوتے ہی معالج سےفوری رجوع ناگزیر ہے۔علاوہ ازیں،سانس لیتے ہوئے خرخراہٹ کی آوازیںآنے، گلےیا آواز کے بیٹھنے یا اس طرح کی کسی بھی تبدیلی کی صُورت میںعین ممکن ہے کہ کوئی رسولی یا ٹیومر نرخرے کے نظام کو متاثر کر رہاہو،جس کی مناسب تشخیص کے لیے معالج سےفوری معائنہ ازحدضروری ہے ۔

بعض اوقات وزن میں تیزی سے کمی بھی ہونے لگتی ہے،مگر ہمارے معاشرے میں وزن کم یازیادہ ہونے پر کچھ خاص توجّہ نہیں جاتی،اس لیے صرف سرطان ہی نہیں،بلکہ اس علامت سے منسلک کئی اور امراض کی بھی بروقت تشخیص نہیں ہوپاتی۔یاد رکھیے،اگرمختصر عرصے میں خوراک اور جسمانی سرگرمی کی تبدیلی کے بغیر وزن تیزی سےکم ہونے لگے اور تھکاوٹ، کم زوری بھی محسوس تو یہ بھی سرطان کی ممکنہ علامت ہو سکتی ہے۔

ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق دیہی کی نسبت شہری علاقوں میں پھیپھڑوں کے سرطان کی شرح بُلند ہے،کیوں کہ شہری ماحول زیادہ آلودہ ہے،نیز تمباکو نوشی بھی عام ہے۔ایک اندازے کے مطابق 80فی صد سے زائد کیسز میں پھیپھڑوں کےسرطان کی وجہ تمباکونوشی ہی ہے۔

اصل میں تمباکوکے ساتھ جو مضرِصحت کیمیائی اجزاء جسم میں داخل ہوتے ہیں،اُن میں سےپچاس تو ایسے ہیں، جو سرطان کا سبب بن سکتےہیں۔آنتیں، نظامِ انہضام کا ایک اہم جزو ہیں کہ یہ کھانے سے غذائیت جذب کرکے جسم کو توانائی مہیا کرتی ہیں۔

 اگر آنتوں کے خلیات کا نظام بگڑ جائے،توسرطان کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔آنتوں کا سرطان دو اقسام میں منقسم ہے، جنہیں طبّی اصطلاح میں کولون اور ریکٹل کہاجاتا ہے۔ چھوٹی آنت اور مقعد کی نسبت بڑی آنت کے سرطان کی شرح بُلند ہے۔

واضح رہے کہ آنتوں کے زیادہ ترکینسرز کی ابتدا اس کی دیواروں سےہوتی ہے۔جب کہ یہ سرطان انفیکشن کا سبب بنتا ہے ،نہ جسم کے کسی دوسر ے حصّے میں منتقل ہوتا ہے۔تاہم، بعض اوقات کینسر کے خلیے آنت کی دیواروں سے خون میں شامل ہو کر اور لمفاوی نظام کے ذریعے جسم کے دیگرحصّوں کو متاثر کر سکتے ہیں،جسے ثانوی کینسر کہا جاتا ہے۔آنت کے سرطان کی ابتدائی علامت قبض یاپیچش ہے۔

بعد ازاں،پاخانے سے خون کا اخراج ، پاخانے کی رنگت بدل جانا، پیٹ درد اوربغیر کسی وجہ کے اچانک وزن کم ہوجاناجیسی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں،مگربعض کیسز میں یہ علامات ظاہر نہیں بھی ہوتیں،اس لیے بہتر یہی ہے کہ پچاس برس کی عُمر کے بعد، ہر پانچ سال بعد معالج کے مشورے سے ٹیسٹ کروالیا جائے۔

بچوں میں سرطان 

بچّے بھی سرطان کا شکار ہوتےہیں،لیکن بچّوں کے کئی کینسرز قابلِ علاج ہیں،بشرطیکہ بروقت تشخیص ہو۔لیکن چوں کہ اس حوالے سے معلومات عام نہیں، توعموماًوالدین عام معالجین سے رجوع کرتے ہیں اور جب تک مرض کی درست تشخیص ہوتی ہے، قابلِ علاج عارضہ،ناقابلِ علاج ہو چُکا ہوتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سال آٹھ ہزار بچّےمختلف اقسام کے کینسرز کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ کراچی میں سالانہ ایک ہزار سے زائد بچّوں میں سرطان تشخیص ہوتا ہے۔

بچّوں میں سرطان کی ابتدائی علامات 

بچّوں میں سرطان کی ابتدائی علامات میں سب سے اہم جِلد کاپیلا پَن یا رنگت اُڑنا، جِلد پر سُرخ دھبّے یا نیل پڑنا، ہڈیوں میں مسلسل درد، جسم کے کسی بھی حصّے میں سُوجن، گردن میں غدود کا بڑھنا، وزن میں غیر معمولی کمی، مسلسل بخار، شام ،خصوصاً رات میں پسینہ آنا، آنکھوں کی پُتلیوں کا سفید ہونا، بھینگا پن، بینائی میں کمی، آنکھوں کے گرد سوجن وغیرہ شامل ہیں۔ اگر خدانخواستہ کسی بچّے میں یہ علامات پائی جائیں، تو فوری طور پر ماہرِ امراضِ اطفال سےرجوع کیاجائے۔علاج کے باوجود بھی علامات برقرار ر ہیں یا وقتی افاقے کے بعد دوبارہ ظاہر ہوجائیں،تو فوری طور پر کسی پیڈیاٹرک انکولوجسٹ سے رابطہ کیا جائے ۔

سرطان کا علاج 

علامات ظاہر ہونے پرجب مریض کسی ماہر انکولوجسٹ سے رجوع کرتے ہیں، تو جسم کے کسی بھی حصّے کا سرطان ہو،عموماً ابتدا میں مختلف قسم کے لیبارٹری ٹیسٹ، ایکسرے اور سی ٹی ا سکین تجویز کیے جاتے ہیں،جب کہ حتمی تشخیص کے لیے بائیوآپسی کروائی جاتی ہے ۔مگر دیکھا گیا ہے کہ معاشرے میں رائج غلط تصوّرات کے سبب زیادہ تر مریض یا ان کے اہلِ خانہ بائیوآپسی کا نام سُن کر ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت، بائیوآپسی کے ذریعے جہاں سرطان کی نوعیت کا پتا چلتا ہے، وہیں اس کی رپورٹ کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی کیا جاتا ہے کہ کون سا طریقۂ علاج مؤثر رہے گا ۔یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ بائیو آپسی کا سُن کر بعض مریض انکولوجسٹ سے دوبارہ رابطے کی بجائے اتائیوں سے علاج شروع کردیتے ہیں،جس کے نتیجے میں مرض پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔

یاد رکھیے، اگرایک بارسرطان کی علامات ظاہر ہوجائیں، تو انہیں بغیر کسی ٹیسٹ کے چھوڑدیناقطعاً غیر مناسب ہے،کیوں کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے، تو نہ صرف مرض کی شدّت بڑھتی چلی جاتی ہے،بلکہ جان کو لاحق خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔اگلے مرحلےمیں رسولی یا ٹیومرکے حجم اور پھیلاؤ کےمعائنے کے بعد طریقۂ علاج کا تعین کیا جاتا ہے،کیوں کہسرطان کے علاج کے مختلف طریقے رائج ہیں، جو مرض کی قسم اور اسٹیج کے لحاظ سے اپنائے جاتے ہیں۔مختصر یہ کہ اگر سرطان ایک ہی جگہ محدود ہو، تواس کے علاج کا طریقہ الگ ہے اوردیگر اعضاءمتاثر ہونے کی صُورت میں علاج کا طریقہ بھی مختلف ہو تا ہے۔

عمومی طورپر سرطان کےعلاج کے لیےسرجری، کیمو تھراپی،ریڈی ایشن تھراپی(شعاؤں کے ذریعے)کے طریقے مستعمل ہیں۔ تاہم ،بعض کیسز میں ٹارگٹ یا جین تھراپی بھی کی جاتی ہے۔اگر سرطان مخصوص حصّے تک محدود ہو، تواس صورت میں آپریشن کیا جاتا ہے۔لیکن آپریشن بھی تب ہی کیا جاتا ہے، جب مرض ابتدائی مرحلے میں ہو،کیوںکہ اس مرحلے میں سرجری کے ذریعے مرض کےمکمل طور پر ختم ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور مریض عام افردکی طرح زندگی گزارسکتا ہے۔تاہم سرطان کی کئی اقسام ایسی ہیں،جن میں سرجری نہیں کی جا سکتی۔ سرطان اگر جسم کے دیگر اعضاء تک پھیل چُکا ہو تو پھر کیموتھراپی یا ریڈی ایشن تھراپی سے علاج کیا جاتا ہے۔ان طریقۂ علاج میں یا تو مریض مکمل طور پر شفا یاب ہوجاتا ہے یا پھر مرض پرکافی حد تک قابو پالیا جاتاہے۔

کیمو تھراپی میں ادویہ اور انجیکشن دونوں طریقےاستعمال کیے جاتے ہیں۔اگرچہ کیمو تھراپی کے مضر اثرات بھی ہیں،اس کے باوجودیہ طریقہ صرف اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ مریض کی جان بچائی جاسکے۔اس تھراپی کےضمنی اثرات میں بالوں کا گرنا، خون کے خلیوں میں کمی اور انفیکشن وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم، اب کیموتھراپی کے لیے نہ صرف جدید ادویہ متعارف ہوچُکی ہیں، بلکہ ان کے ضمنی اثرات سےتحفّظ کے لیے بھی کئی ادویہ دستیاب ہیں۔ ریڈی ایشن تھراپی شعائوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ٹارگٹ جین تھراپی میں مریض کے کینسر والے جین کو ٹارگٹ کرکے دوا دی جاتی ہے۔ مگریہ بہت منہگا طریقۂ علاج ہے، جس کا ایک عام فرد متحمّل نہیں ہوسکتا۔

ترقّی یافتہ مُمالک میں صحت سے متعلق تمام تر سہولتوں کی فراہمی ریاست کے ذمّے داری ہے،مگر افسوس کہ پاکستان میں صحتِ عامہ کی صُورتِ حال بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہوتی جارہی ہے۔ بالخصوص کینسر کے علاج کے لیے دستیاب سہولتوں کا دائرہ کار انتہائی محدود ہے۔اس وقت سرطان کے مریضوں کے علاج کے تقریباً 80فی صد اخراجات اٹامک انرجی کے قائم کردہ ادارے ادا کررہے ہیں ،تو بعض نجی ادارے اورسی ایم ایچ کے چندسینٹرز میں سرطان کے علاج کی سہولت موجود ہے،اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سہولتیں کافی ہیں۔اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاکہ ریڈی ایشن تھراپی کے لیے مریضوں کو اپنی باری کا چھے 6 ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

پھرمریضوں کی تعداد کی نسبت تربیت یافتہ سرجنز، اونکولوجسٹس اور ریڈیالوجسٹس وغیرہ کی تعدادبھی خاصی کم ہے ۔چوں کہ سرطان کا علاج انتہائی منہگا ہے، توضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے سرکاری و غیر سرکاری ادارے مل کر کام کریں۔بالخصوص سرکاری اسپتالوں میں سرطان کی تشخیص اور مناسب علاج کے لیے سرطان کے شعبےقائم کیے جائیں، جہاں دَورِ جدید کے مطابق تمام تر سہولتیں میسّر ہوں، تاکہ وہ طبقہ، جو سرطان کے منہگے علاج کا متحمّل نہیں،اُسے آسان اور سستا علاج مہیا ہو سکے۔

مزید خبریں :