07 فروری ، 2020
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جامشورو میں سرکاری زمین ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو فروخت کرنے والے جعلسازوں کی درخواست ضمانت خارج کردی۔
سپریم کورٹ میں جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) پراسیکیوٹرز پر بغیر تیاری پیش ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس مشیرعالم نے حکم دیا کہ نیب پراسیکیوٹرز کیس پڑھ کر آیا کریں تاکہ عدالت کی معاونت کرسکیں۔
اس دوران جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کتنے ایکڑ سرکاری اراضی نجی ملکیت ظاہر کرکے ڈی ایچ اےکو دی گئی؟ جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ اراضی کی مد میں ڈی ایچ اے نے ملزمان کو کتنی رقم ادا کی؟
نیب پراسیکیوٹر جنرل نے جواب دیا کہ ڈی ایچ اے کو 731 ایکڑ اراضی فروخت کی گئی، سرکاری اراضی کے جعلی انتقال بنائے گئے، ڈی ایچ اے نے اراضی کے بدلے ملزمان کو پلاٹس کی 1125 فائلیں دیں۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ریاست کی زمین کو نجی ملکیت ظاہر کرکے فروخت کیا گیا۔
ملزم حنیف لالانی کے وکیل کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل نے ڈی ایچ اے کو زمین فروخت نہیں کی۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے مؤکل پر اسکینڈل کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم گرفتار نہ ہوا تو گواہان پر اثرانداز ہو سکتا ہے جبکہ ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل پر تمام الزامات خیالی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ تمام گواہان کے اشارے آپ کے مؤکل کی طرف ہی جارہے ہیں، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہرسوال کا جواب نیب پراسیکیوٹرز کو فائلوں سے ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
اس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ کوشش کریں گے کہ آئندہ عدالت کو شکایت نہ ہو۔
اس دوران عدالت نے ملزمان کی درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے حکم دیا کہ حنیف لالانی اور دیگر ملزمان ٹرائل مکمل ہونے تک جیل میں رہیں گے۔ سپریم کورٹ نے نیب کو 6 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا بھی حکم دیا۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار نے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ڈی ایچ اے کی کہانی بھی ہمیں معلوم ہے، جائزہ لیں تو سارا غیر قانونی نکلے گا، ساری لیزیں فارغ ہوجائیں گی، میں بھی فارغ ہوجاؤں گا، فارغ ہوجاؤں تو کوئی بات نہیں مگر ہمیں قانون پر چلنا ہے۔