پاکستان

سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ کا دورۂ پاکستان؟

کیا پاکستان یہ سوال کرسکتا ہے کہ سیکیورٹی کونسل کی اپیل پر سیز فائر کرکے جو تباہ کن غلطی کی اور جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہا ہے، اس کا اقوامِ متحدہ نے کبھی خود بھی جائزہ لیا؟—فوٹو فائل 

تقسیم ہند کے بعد برصغیر کی بنتی تلخ تاریخ کی زندہ اور ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ پارٹیشن کے تین فریق، رخصت ہوتا فرنگی راج، آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ میں سے اولین دو کے گٹھ جوڑ سے مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کو غصب کرنے کیلئے تقسیم کے فارمولے پر ادھورا عملدرآمد ہوا۔ 

ماؤنٹ بیٹن اور نہرو نے سازش یہاں تک ہی نہیں کی کہ ریاست کے ظالم ہندو راجہ سے ساز باز کر کے فقط جموں و کشمیر کو ہی بھارت میں شامل کرتے، بلکہ ایسا کرنے کیلئے بھارت کی مشکل جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر فارمولے کے مطابق پاکستان کی جانب آئی تحصیل گورداسپور کو بھی آخری لمحات میں بھارت میں شامل کر دیا گیا۔

نہرو۔ ماؤنٹ بیٹن سازش کے معاون پاکستانی انگریز کمانڈر انچیف کی حکم عدولی کے باوجود کشمیر کے ایک حصے کو تو آزاد کرانے میں پاکستان کی جزوی کامیابی ہو گئی تھی اور اس کی پیش قدمی بھی جاری تھی، اس امر کا واضح امکان تھا کہ بھارتی فضائیہ سے سرینگر میں اترنے والی فوج، پاکستانی قبائلی مجاہدین کی یلغار کو روک نہیں سکے گی۔

 یوں پاکستانی مجاہدین نے وادی کو بھی پاکستان میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کر لینا تھی، ایسے میں نہرو نے خوف زدہ ہو کر فوراً اقوامِ متحدہ سے رجوع کیا اور پاکستان نے عالمی امن کے علمبردار نئے عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ کی (غالباً) جنگ روکنے کیلئے فائر بندی کی پہلی اپیل کو اپنی عسکری کامیابیوں کے باوجود وقعت دی اور اسکے احترام اور اعتبار پر اپیل کو تسلیم کرتے ہوئے قبائلی مجاہدین کی عسکری کامیابیوں کا عمل فوراً روک دیا کہ اگر مسئلہ عالمی ثالثی سے پُرامن طریقے سے سیاسی طور پر حل ہو جائے تو اس سے دونوں اطراف کی ہلاکتوں اور نقصان سے بچا جا سکے گا۔ اقوامِ متحدہ کی اہمیت اور اعتبار بھی بڑھے گا اور مستقبل کے پاک بھارت تعلقات ٹھیک رہیں گے۔

 لہٰذا پاکستان نے اپنی یقینی اور ہوتی عسکری کامیابیوں سے بھارتی۔ فرنگی سازش کے باوجود بازیاب ہوتے کشمیر کا عمل روک کر اپنے ہدف کے حصول کی راہ کا رخ نیویارک کی طرف موڑ دیا لیکن آج محصور کشمیر اور اس کی 70سالہ تاریخ خود پاکستان اور دنیا پر واضح کر رہی ہے کہ یہ کامیاب ہوتے فریق پاکستان اور غربت و افلاس میں ڈوبے بھارت اور سب سے بڑھ کر 90لاکھ صدیوں سے ظلمت میں ڈوبے کشمیریوں کیلئے کتنا تباہ کن ثابت ہوا۔

خطے کے امن اور اقوامِ متحدہ کا اعتبار بڑھانے کے لئے اس کی اپیل کا اتنا مخلصانہ ریاستی فیصلہ پاکستان کو کتنا مہنگا پڑا، یہ جیسے کوئی جرم بن گیا جس کی ’’سزا‘‘ وہ تادم بھگت رہا ہے لیکن اس سارے کھیل کا شری فریق، غربت میں ڈوبا بھارت بھی ترقی کے تمام تر پوٹینشل کے باوجود بھاری بھرکم دفاعی بجٹ کے چنگل میں پھنسا ہی نہیں رہا۔ آج اس کی توسیع پسندی اور اس پر اقوامِ متحدہ کے منشور سے متصادم عمل نے اسے مذہبی بنیاد پرستی اور اپنے قابلِ رشک نظریے سیکولر جمہوریت، کے قتل تک پر آمادہ کر دیا۔ ایسے کہ مذہبی جنون کو ریاستی سیاست میں ہی غلبہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں گجرات کے قتلِ عام کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جانے والا اور آر ایس ایس کا لڑکپن سے سرگرم رُکن، اب بھارت کا منتخب وزیراعظم ہے جس نے کشمیر کوببھارت سے بھی مکمل کاٹ کر دنیا کے طویل ترین 6ماہی کرفیو میں جکڑ دیا ہے۔

6ماہ میں سیکورٹی کونسل کے کشمیر پر دو اجلاس، جو اقوامِ متحدہ کی تحریک پر نہیں، چین کی محدود لیکن موثر کوشش سے ممکن ہوئے، پھر ہیومن رائٹس کمیشن کی دو رپورٹس، جینو سائڈ واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بار بار گہری تشویش اور وہاں بنیادی انسانی حقوق کی تصدیق کر دی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ، یورپی یونین اور امریکی کانگریس میں مسئلہ کشمیر، عالمِ تشویش میں زیرِ بحث آیا، اس کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا۔

یہ سوال اپنی جگہ بہت طاقتور اور بروقت ہے کہ ہم دنیا کو مختصر ترین بیانیے کے ذریعے یہ باور کرائیں کہ پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے، جس نے نومولود اقوامِ متحدہ اور اس کے چارٹر اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے غصب شدہ کشمیر کو آزاد کرانے کے جائز نیم عسکری آپریشن سے کامیابیاں سمیٹنے کے عمل کو ترک کرکے کیا کوئی جرم کیا تھا؟ کہ اسے اور پورے خطے بشمول بھارت کو بشکل غربت و عدم استحکام، سزا مل رہی ہے۔

خبروں کے مطابق اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس جلد پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ کیا ہم ان سے پاکستان کو ملنے والی 70سالہ سزا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور پورے جنوبی ایشیا میں اس کے گہرے منفی اثرات کے حوالے سے یہ طاقتور سوال کر سکیں گے کہ پاکستان نے سیکورٹی کونسل کی اپیل پر سیز فائر کرکے جو تباہ کن غلطی کی اور جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہا ہے، اس کا اقوامِ متحدہ نے کبھی خود بھی جائزہ لیا؟ کیا ان سے یہ سوال کیا جا سکے گا کہ سیز فائر لائن جو بعد میں کنٹرول لائن بن گئی، جسے پرامن رکھنے کے لئے دونوں جانب اقوام متحدہ کے مبصرین کا ایک ڈھیلا ڈھالا اتمام حجت موجود اب تک رہا ہے، کیا وہ اب اس جانب (بھارت کے مقبوضہ) میں بھی موجود ہے؟ نہیں ہے، تو کیوں نہیں؟

 اس ضمن میں اپنے اس اتمامِ حجت کے متاثر ہونے پر اقوامِ متحدہ کیا کر رہی ہے؟ سیکرٹری جنرل کے پاس دنیا میں کہیں بھی امن کو شدید لاحق خطرے کی جانب سلامتی کونسل کے اراکین کی توجہ مبذول کرانے کا جو اختیار ہے، انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ سنگین اور پُرخطر صورتحال کے پسِ منظر حتیٰ کہ پاک بھارت محدود فضائی جنگ میں بھی اسے استعمال کیا؟ نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا؟ خود اقوامِ متحدہ نے عالمی امن، حقِ خود ارادیت اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار اور ذمہ دار کے طور اب تک کیا کیا؟ 

خدارا روایتی سفارتی نام نہاد ادب آداب و پروٹوکول سے ذرا ہٹ کر، مہمان گرامی کا مکمل احترام اور انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے کیا ہم آج بھی اقوامِ متحدہ کا رہا سہا اعتبار اور احترام بلکہ بھرم بچانے اور مقبوضہ کشمیر کی گمبھیر صورتحال میں اصلاً متوجہ کرانے کیلئے اب 70 سال بعد یہ سوال اٹھانے اور اسے دنیا میں عام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ حکومت نہیں تو سول سوسائٹی، وہ نہیں تو خود حکومت، اس شدید قومی ضرورت کو موجودہ صورتحال میں پوری کرنے کے لئے تیار ہے؟ ہمارا میڈیا، ہماری سیاسی جماعتیں، ہماری پارلیمان کی کشمیر کمیٹی، ہماری این جی اوز اور پاکستان میں بسنے والے لاکھوں کشمیری کچھ تیاری کر رہے ہیں؟ وما علینا الا البلاغ

مزید خبریں :